رسول اکرم ﷺ سے پوچھے گئے کچھ دلچسپ سوالات
آپ ﷺ کے چہرے پر یہ نور کیسا ہے ؟
بلال بن حمامہ روایت کرتے ہیں: ایک دن رسول اکرم ﷺ نے اس حالت میں ہمارے سامنے آئے کہ آپ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ عبداللہ بن عوف نے کھڑے ہوکر آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ کے چہرہ پر یہ نور کیسا ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ ایک بشارت کا اثر ہے جو مجھے اپنے ابن عم اور میری بیٹی کے متعلق دی گئی ہے۔ اللہ تعالی نے فاطمہ علیہ السلام کو علی علیہ السلام کی زوجیت میں دے دیا ہے اور رضوانِ جنت کو حکم دیا ہے کہ وہ شجرِ طوبیٰ کو ہلاۓ۔ تب درخت ہلانے پر ہمارے اہل بیت علیہ السلام کے محبان کی تعداد کے برابر پتے کرے ۔
پھر اللہ تعالی نے ہر پتے سے ایک ایک فرشتہ پیدا کیا اور اس کے ہاتھ میں وہ پتہ بطور سند دے دیا گیا۔ پھر جب قیامت قائم ہوگی تو فرشتے ندا دیں گے۔ ہمارے محبان میں سے کوئی بھی محبت ہم سے تب تک ملاقات نہیں کرے گا جب تک اس کے ہاتھ میں وہ رقعہ بطور سند نہ ہوگا۔ اس طرح اللہ میرے بھائی و پسر عم علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور بیٹی فاطمہ زہراہ سلام اللہ علیہا کی برکت سے لوگوں کو دوزخ سے نجات دے گا۔(بحارالانوار، ج ۲۷،ص۱۱۷، ح 96)
کیا بیٹا باپ سے پہلے تھا ؟
ابن مھران نے جناب عبداللہ ابن عباس رضی سے قرآن مجید کی سورۃ الصافات کی دو آیات کی تفسیر کے متعلق پوچھا: ( آیت 165 ، 116) (بے شک ہم ہی صفیں قائم کرنے والے ہیں اور بے شک ہم ہی تسبیح کرنے والے ہیں)۔ جناب عبداللہ ابن عباس (رضی) نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ رسول اکرم (ص) کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے کہ اچانک علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لاۓ ۔
جب نبی کی نظر علی علیہ السلام پر پڑی تو چہرۂ اقدس پر مسکراہٹ آئی اور فرمایا: ” مرحبا اس شخص کے لیے جسے اللہ نے آدم علیہ السلام سے 40 ہزار سال قبل پیدا کیا ” ۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ (ص) ! یہ کیسے ہوسکتا ہے کیا بیٹا باپ سے پہلے پیدا ہوا؟ رسول اکرم (ص) نے جواب دیا: ہاں۔ اللہ تبارک و تعالی نے مجھے اور علی علیہ السلام کو آدم علیہ السلام سے چالیس ہزار سال پہلے خلق فرمایا۔ اس نے نور کو خلق فرمایا۔ پھر اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے سے مجھے اور ایک حصے سے علی علیہ السلام کو خلق فرمایا ہر چیز سے پہلے ۔ پھر دوسری اشیاء کو پیدا فرمایا۔ اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اللہ نے میرے اور علی علیہ السلام کے نور سے ہر چیز کو منور کیا اور ہمیں عرش کے دائیں طرف قرار دیا۔ پھر ملائکہ کوخلق فرمایا۔ ہم نے تسبیح کی تو ملائکہ نے سن کر تسبیح کی۔ ہم نے تہلیل کی تو ملائکہ نے تہلیل کی۔ ہم نے اللہ کی کبرائی بیان کی تو ملائکہ نے تکبیر کی۔ پس اسی طرح ملائکہ نے علی علیہ السلام اور مجھ سے سیکھا اور اللہ کا علم سابق ہے، اللہ میرے اور علی علیہ السلام کے محب کو جہنم میں داخل نہیں کرے گا اور میرے اور علی علیہ السلام کے دشمن کو جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ آگاہ رہو! یقینا اللہ نے ملائکہ کو پیدا فرمایا ۔ ان کے ہاتھوں میں سونے کے طشت ہیں جو کہ آبِ حیات جو فردوس کا پانی ہے ، سے پُر ہیں۔ پس جو بھی علی علیہ السلام کا شیعہ ہوگا اس کے والدین طاہر، تقی ، نقی اور اللہ پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔ جب اللہ ان کو اولاد عطا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ملائکہ میں سے ایک فرشتہ جنت کا پانی لے کر آتا ہے اور اس برتن میں ڈال دیتا ہے جس سے وہ مومن پانی پینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ جب مؤمن پانی پیتا ہے تو اس پانی کی برکت سے مومن کے دل میں ایمان نمو ہوتا ہے جس طرح کہ زراعت نمو ہوتی ہے اور وہ اپنے رب ، نبی (ص) اور وصی علی علیہ السلام کی طرف سے دلیل رکھتا ہے۔ اسی طرح جناب زہراء سلام اللہ علیہا ، حسن علیہ السلام ، حسین علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے آئمہ پر ایمان رکھتا ہے۔ راوی کہتا ہے: میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ آئمہ کون ہیں؟ رسول اکرم (ص) نے جواب دیا: گیارہ مجھ سے ہیں اور ان کا باپ علی علیہ السلام ہیں۔ پھر فرمایا: الحمدللہ! کہ جس نے علی علیہ السلام کی محبت اور اس پر ایمان کو دو اسباب پر قرار دیا، یعنی ایک سبب جنت میں داخل ہونے کا اور دوسرا سبب ہے جہنم سے نجات کا۔ (بحارالانوار، ج۲۴، ص ۸۸-۸۹، ۴۲ ،عن كنز الفوائد )
کچھ یہودیوں نے سوال کیا : آپ کا نام محمد ﷺ کیوں ہے ؟
حضرت امام حسن علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں چند یہودی شرف یاب ہوۓ اور انھوں نے بہت سے سوال کیے لیکن ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ کے نام ” محمد ، احمد ، ابوالقاسم ، بشیر ، نذیر اور داعی“ کا کیا سبب ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: میں ” محمد ” اس لیے ہوں کہ زمین میں میری تعریف کی جاتی ہے اور ” احمد ” اس لیے ہوں کہ میں نے آسمانوں میں خدا کی سب سے زیادہ حمد کی ہے۔
آسانوں میں تعریف کیے جانے کی وجہ سے ” احمد ” ہوں۔ اور ” ابوالقاسم ” اس لیے ہوں کہ قیامت کے دن خدا جہنم اور جنت کو میرے وسیلہ سے تقسیم کرے گا۔ یعنی اولین و آخرین میں سے جس نے بھی میرا انکار کیا ہوگا خدا اسے دوزخ میں ڈالے گا اور جو ایمان لاۓ گا اور میری نبوت کا اقرار کرے گا تو وہ جنت میں ہوگا اور ” داعی ” اس لیے ہوں کہ میں اللہ کے دین کی لوگوں کو دعوت دیتا ہوں اور ” نذیر ” اس لیے ہوں کہ جنھوں نے میری نافرمانی کی انھیں آگ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور ” بشیر ” اس لیے ہوں کہ جنھوں نے میری اطاعت کی ان کو جنت کی خوشخبری دیتا ہوں۔ (بحارالانوار، ج ۱۲، ص۹۴، ح ۲۸، عن الامالی و علل الشرائع و معانی الاخبار صدوق)
ابنِ سلام یہودی نے پوچھا: آپ کو یہ علم کہاں سے ملا؟
ابن سلام یہودی نے آپ سے بہت سے سوال کیے جب اسے ان سوالوں کے تسلی بخش جواب مل گئے تو اس نے پوچھا: آپ کو ان سب باتوں کا علم کس نے دیا؟ (آپ کو ان باتوں کی خبر کس نے دی؟) رسول اکرم نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے۔ ابن سلام نے کہا: جبرئیل علیہ السلام کو کس نے بتایا؟
رسول اکرم نے فرمایا: میکائیل علیہ السلام نے۔ ابن سلام نے سوال کیا: میکائیل علیہ السلام کو کس نے خبر دی؟ رسول اکرم نے فرمایا: اسرافیل علیہ السلام نے۔ ابن سلام نے پوچھا: اسرافیل علیہ السلام کو علم کیسے ملا؟ رسول اکرم نے فرمایا: لوحِ محفوظ سے۔ ابن سلام نے کہا: لوحِ محفوظ نے علم کہاں سے حاصل کیا؟ رسول اکرم نے جواب دیا: قلم کے ذریعے۔ ابن سلام نے پوچھا اور قلم کو علم کیسے حاصل ہوا؟ رسول اکرم نے فرمایا: عالمین کے پروردگار نے اسے یہ علم عطا کیا۔
(بحارالانوار ج۹، ص ۳۳۸ و ۳۳۹، ح 25)
چند لمحوں کی خطا پر ابدی عذاب کیوں ؟
ایک یہودی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بہت سوالات کیے۔اس کے سوالوں میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر آپ کا پروردگار ظلم نہیں کرتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی کے چند روزہ گناہوں کی سزا میں اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جاۓ؟ رسول اکرم (ص) نے جواب میں فرمایا: وہ اپنی نیت کی بنیاد پر جہنم میں جائے گا۔ اللہ تعالی جانتا ہے کہ اگر اس شخص کو دنیا کے باقی رہنے تک زندہ رہنے دیا جاتا تو بھی وہ معصیت خدا میں جتلا رہتا۔
چونکہ اس کی نیت اس کے عمل سے بھی زیادہ بد ہے، اس لیے اللہ سے اس کی نیت کے مطابق دوزخ میں ڈالے گا۔ اسی طرح جو ہمیشہ کے لیے جنت میں جائے گا اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ اگر یہ دنیا کے خاتمہ تک بھی زندہ رہتا تو اطاعت خدا بجا لاتا اور اس کی یہ نیت اس کے عمل سے برتر ہے۔ لہذا اہل بہشت اپنی نیت کی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے بہشت میں جائیں گے اور اہل دوزخ اپنی نیت کی بنیاد پر ہمیشہ کے لیے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ اللہ تعالی نے اس ضمن میں فرمایا ہے: (بنی اسرائیل: 84) ” آپ کہہ دیں کہ ہر شخص اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے “۔