You are currently viewing امام جعفر صادق ع سے سوال: حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا؟

امام جعفر صادق ع سے سوال: حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا؟

حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا؟

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے مفضل! اب تم حیوانات کے جسم پر غور کرو انھیں انسان کے لیے پیدا کیا گیا ہے لہذا جس طرح ان کے بدن کو گوشت ، ہڈی ، اعصاب عطا کیے۔ اسی طرح انھیں کان اور آنکھ بھی عطا کیے، تا کہ انسان انھیں اپنی ضرویات کے استعمال میں لاسکے، اس لیے کہ اگر حیوانات بہرے، اندھے ہوتے تو انسان ان سے ہرگز فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا اور خود حیوانات بھی اپنے کاموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے۔

امام جعفر صادق ع سے سوال: حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا؟ | طب صادقTIger

لیکن انھیں ذہن عطا نہیں کیا گیا ، تاکہ وہ انسان کے سامنے جھکے رہیں اور جب انسان ان سے بار برداری کا کام لے تو یہ اسے انجام دینے سے منع نہ کریں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بعض غلام بھی تو ایسے ہیں کہ جو انسان کے سامنے ذلیل ہیں اور سخت ترین کاموں کو انجام دینے کے لیے تیار ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل ہیں؟ اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں ۔

اور اکثر افراد اس قسم کے سخت ترین کام مثلاً بار برداری ، چکی چلانا وغیرہ کے انجام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اگر اس قسم کے سخت کام بھی کہ جنہیں حیوانات انجام دیتے ہیں انسان کو انجام دینے پڑتے تو وہ دوسرے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے کہ ایک اونٹ یا خچر کی جگہ پر کئی آدمیوں کو کام کرنا پڑتا اور یہ کام انسانوں کو اس قدر مشغول رکھتا کہ جس کی تھکن ، سختی ، تنگی اور مشقت کی وجہ سے انسان کے پاس اتنا وقت باقی نہ رہتا کہ وہ صنعت یا دوسرے کاموں کو انجام دے سکے۔

انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا ؟

اب اگر کوئی یہ کہے کہ انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا جو یہ آفتیں اور بلائیں رونما ہوکر اسے نقصان پہنچاتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر انسان گناہوں سے معصوم خلق ہوتا تو اب جو بھی نیکی کرتا تو یہ نیکی قابل تعریف نہ ہوتی اور نہ ہی وہ اس کے اجر و ثواب کا مستحق ہوتا۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ خداوند متعال کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی تمام نعمتیں بندوں کو عطا کر دیتا ؟

انسان گناہوں سے معصوم خلق کیوں نہ ہوا ؟ | طب صادق

اس کے جواب میں کہا جائے گا، ذرا تم اس شخص کی حالت پر غور کرو جو صاحب عقل و فہم ہو اور وہ ایک جگہ بیٹھ جائے اور اسے جس چیز کی ضرورت ہو اسے بغیر کسی زحمت و مشقت کے اس کے سامنے پیش کر دیا جائے کہ جس کا وہ مستحق نہیں تو کیا اس کا نفس اس بات پر راضی ہوگا ؟ ہرگز نہیں، بلکہ تم اسے دیکھو گے کہ وہ ان چیزوں کو زیادہ چاہتا ہے کہ جو اس نے زحمت و مشقت کے بعد حاصل کی ہیں۔

آخرت کی نعمتیں بھی بالکل اسی طرح ہیں کہ جو اس کے حاصل کرنے والے کے لیے کامل ہو جاتی ہیں اس لیے کہ اس کے حاصل کرنے میں اس نے سعی و کوشش سے کام لیا اور وہ اس کا مستحق بھی تھا کہ اسے اس قسم کی نعمتیں عطا کی جاتیں۔ پس ان نعمتوں اور ثواب کو حاصل کرنے کے لیے خداوند عالم نے انسان کے لیے اس دنیا میں راہ ہموار کی ہے کہ وہ اس دنیا میں رہ کر ان کے حصول کے لیے کوشاں رہے تا کہ وہ ان نعمتوں سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکے، کہ جو اسے آخرت میں عطا کی جائیں گی۔

اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ کبھی لوگوں کو اس قسم کی نعتیں ملتی ہیں کہ جنہیں پاکر وہ خوشحال ہو جاتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ اس کے مستحق نہ تھے تو پھر آخر اس قسم کی وضویت پر کیا چیز مانع ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ آخرت کی نعمتیں بھی اسے ایسے ہی مل جائیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس راہ کو لوگوں کے لیے فراہم کر دیا جائے کہ انھیں گناہ کے باوجود آخرت میں نعتیں اور اجر و ثواب ملے، تو وہ اپنی خواہشات کو پورا کرنے ، فسادات ، لوگوں کے قتل وغیرہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیں گے پھر کون ہوگا کہ جو اپنے آپ کو زن فاحشہ سے بچاۓ گا اور کون نیکی کو انجام دینے کے لیے زحمت و مشقت کو برداشت کرے گا، جب کے کہ وہ یقین رکھتا ہے کہ ہر حال میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوگا۔ اگر لوگوں کا حساب و کتاب نہ ہوتا تو پھر کون اپنے آپ ، اپنے مال اور اپنے گھر والوں کو لوگوں کے ناجائز تجاوز سے حفظ و امان میں رکھ سکتا تھا؟ گویا اس قسم کی حالت و کیفیت کا ضرر لوگوں پر بہت ہی جلد اثر انداز ہوتا اور دنیا سے پہلے آخرت وجود میں آجاتی ، اور اس سے حکمت اور عدل الہی دونوں باطل ہوکر رہ جاتے ، اور اس حالت کے صحیح نہ ہونے پر اعتراض کیا جاسکتا تھا۔

بچہ کے گریہ کے فوائد

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے مفضل! بچہ کے گریہ کے فوائد کو جان لو ، کہ بچہ کے دماغ میں ایک ایسی رطوبت ہے جو اگر اس کے دماغ میں باقی رہ جائے ، تو اس کے لیے بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے جیسے بچہ کا اندھا ہونا اور اس قسم کے دوسرے امراض ۔ اس کا رونا ہی اس رطوبت کو دماغ سے نیچے لانے کا سبب ہے ، جس کے نتیجے میں اس کا بدن صحیح و سالم رہتا ہے۔

بچہ کے گریہ کے فوائد | طب صادق

ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے رونے کے فائدے سے ہم کنار ہو رہا ہو ، اور اس کے والدین اس سے بے خبر ہوں، اور صد درصد ان کی یہی کوشش ہو کہ بچہ خاموش ہو جائے اس لیے کہ وہ نہیں جانتے کہ بچے کا رونا ہی اس کے حال و مستقبل کے لیے بہتر ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اے مفضل! وہ رال جو بچے کے منہ سے ٹپکتی ہے اس میں بھی ایک راز ہے وہ یہ کہ رال بیچے کے بدن سے اس رطوبت کو خارج کرتی ہے جس کے باقی رہ جانے سے ایک بڑے ضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس بچے پر اس رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ رطوبت اسے دیوانگی اور اختلال عقل سے دو چار کر دیتی ہے ، اور اس کے علاوہ بہت سی بیماریوں جیسے فالج اور لقوہ کا سبب بنتی ہے۔

لہذا خداوند عالم نے اس رال کو اس طرح قرار دیا کہ وہ بچہ کے منہ سے ٹپکے تا کہ جوانی میں اس کا بدن صحیح و سالم رہے۔ خداوند عالم اپنے تمام بندوں پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے ، چاہے اس کے بندے اس سے بے خبر ہی کیوں نہ ہوں۔

اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے

حوالہ کتاب : طب صادق

اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں

امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق امام جعفر صادق