شانِ رسول خدا (ص)
علامہ عرفان حیدر عابدی کی یادگار مجلس
موضوع: شانِ رسول خدا (ص)
بسم الله الرحمن الرحيم
وَمَا مُحَمَّدًٌ اِلَّا رَسُؤلًٌ
حاضرین گرامی قدر !
عزیزان محترم ! یہ خصوصی سالانہ مجلس عزا ہے جس سے جوہر ٹاؤن میں پہلی مرتبہ آپ حضرات سے خطاب کا شرف حاصل کر رہا ہوں ۔ ایک مختصر سی ہے آیت قرآن مجید کی جس میں اتنے ہی جملے ہیں جتنے کلمہ طیبہ کے پہلے حصہ میں ہیں ۔
کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ ہے : لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
اس آیت میں ہے : وَمَا مُحَمَّدًٌ اِلَّا رَسُؤلًٌ
معانی بیان کے اعتبار سے اور اپنی معنویت اور گہرائی کے اعتبار سے یہ آیت بہت مختصر ہے ۔
عزیزان محترم !
ہم نے غور اس امر پر کرنا ہے مختصر سے وقت میں کہ قرآن سارا کا سارا بطور معجزہ قلب پیغمبر ص پر نازل ہوا ، ایک سو اٹھتر سے زیادہ خطبات ہیں قرآن مجید میں جو سرکار ختمی مرتبت کو پروردگار عالم نے مرحمت فرماۓ ۔ کہیں یاسین کہا ، کہیں طہ ، کہیں مزمل کہا ، کہیں مدثر کہا ، کہیں داعیا الی اللہ کہا ، کہیں سراجاً منیراً کہا ، کہیں نبی کہا ، کہیں رسول کہا ، کہیں سراج منیر کہا ، کہیں رحمۃ للعالمین کہا ، کہیں نور کہا لیکن یہ اپنی جگہ پر ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ایک لقب ایسا نہیں ہے پورے قرآن مجید میں جو سرکار ختمی مرتبت کو پروردگار نے دیا کہ جسے پڑھ کر ہم یہ کہیں کہ سر کار بشر بھی ہیں ۔ ( نعرۂ حیدری )
عزیزان محترم ! پورے قرآن میں کوئی ایک بھی لقب ہمیں ایسا نظر نہیں آیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ اے حبیب ص ! ہم نے تجھے بشر بنایا ، ہم نے تجھے خاک سے پیدا کیا ، ہم نے تجھے ہوا سے پیدا کیا ، ہم نے تجھے آگ سے پیدا کیا ، ہم نے تجھے پانی سے پیدا کیا ، سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن کی تلاوت کرنے والے قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے ؟ حضرت آدم ع وہ نبی اللہ ہیں کہ جن کا قرآن مجید میں سات آٹھ مقامات پر تذکرہ ہے اور ہر جگہ ان کے ذکر کے ساتھ مٹی کو مربوط کیا گیا ہے کہ ہم نے مٹی سے آدم کو بنایا ، ہم نے مٹی سے شرکو بنایا ، تو جس آدم ع کو قرآن نے ساتھ آٹھ مقامات پر مٹی سے بنا ہوا بشر قرار دیا ہے اس آدم ع کو تو کوئی مسلمان اپنے جیسا بشر نہیں کہتا لیکن جو سردار کا ئنات ہیں ، مقصد تخلیق کائنات ہیں ، ان کے بارے میں آج پتا نہیں یہ بات کہنے والے کہاں سے آ گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ نبی ہم جیسا ہے ۔ ( نعرہ حیدری )
علامہ عرفان حیدر عابدی
حضرت آدم ع کے بارے میں تو قرآن نے کہا : وَاِذْ قَالَ لِلْمَلٰىِٔكَةٍ اِنِّىْ خَالِقٌ بَشَرًامِّنْ طِيْنٍ
بشر بھی کہا اور مٹی سے بنانے کا اعلان بھی کیا ۔ جناب آدم ع کی طینت میں مٹی شامل کرنے والا پروردگار کلمہ پڑھنے والوں کی طینت سے بھی واقف تھا اس لیے پہلے ہی بشر کے معنی بتا دیئے ۔
وَاِذْ قَالَ لِلْمَلٰىِٔكَةٍ اِنِّىْ خَالِقٌ بَشَرًامِّنْ طِيْنٍ “میں خلق کر رہا ہوں بشر” کا ہے سے ؟ مٹی سے !
تو قیامت تک اللہ تعالی نے یہ قانون بنا دیا کہ بشر وہ ہوگا جو مٹی سے خلق ہوگا ، جو مٹی کا نتیجہ ہوگا ، وہ بشر ہوگا ۔ ( نعرہ حیدری )
مجھے تعجب اور گلا بھی ہوتا ہے قاریان قرآن سے کہ یہ قرآن میں تدبر کیوں نہیں کرتے کہ جس آدم ع کا تذکرہ متعدد مقامات پر قرآن میں نظر آ رہا ہے کہ ہم نے آدم ع کو مٹی سے بنایا ۔ ہم نے کھنکھناتی ہوئی مٹی سے بنایا ، ہم نے گلی سڑی مٹی سے بنایا ، ہم نے آدم ع کا یوں پتلا بنایا ، یوں نفخ روح کیا ۔
اس آدم ع کے لیے کوئی مسلمان ہی نہیں کہتا کہ وہ ہم جیسے بشر ہیں اور جس نبی ص کو اللہ تعالی ایک سو اٹھتر مقامات پر القابات دیتے ہوئے ایک مقام پر نہیں فرمایا کہ ہم نے اپنے محمد ص کو مٹی سے بنایا ، آگ سے بنایا ، ہوا سے بنایا اور پانی سے بنایا ہے ۔
کیوں ؟ کیا وجہ ہے ؟ کیا پس منظر ہے کہ اس نبی ص کو اپنے جیسا بشر کہنے پر چودہ صدیاں صرف کر کے ایمان کو خریدا جا رہا ہے ۔
بھائیو ! کبھی اس رخ سے بھی ملت غور کرے اور سوچ لے کہ جناب آدم ص کو کوئی نہیں کہتا اپنے جیسا بشر ، جناب نوح ع کو کسی مسلمان نے اپنے جیسا بشر نہیں کہا ، جناب شیث ع کو کسی مسلمان قاری نے اپنے جیسا بشر نہیں کہا ، جناب یحییٰ ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب ذکریا ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب داؤد ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب ابراہیم ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب اسحاق ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب اسماعیل ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب یعقوب ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب یوسف ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب سلیمان ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے جناب موسیٰ ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب ہارون ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب ہود ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، جناب عیسیٰ ع کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ، ایک کم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مسلمان جانتے ہیں ، کسی کو اپنے جیسا بشر نہیں کہتے ۔ آخر وجہ کیا ہے ، سبب کیا ہے کہ امتیوں کو نور مانتے ہو اور سردار کو بشر کہتے ہو ؟ ( نعرہ حیدری )
تو یہ مقام فکر ہے کہ کبھی اس رخ سے بھی سوچ لیا کریں ، کبھی اس رخ سے بھی غور کر لیا کریں ۔ دیکھئے ! ایک لاکھ تیس ہزار نو سو ننانوے نبی ع امتی ہیں میرے نبی ص کے ۔ کلمہ پڑھنے والے ہیں میرے رسول خدا (ص) کا ۔
توجه ! ان انبیاء ع نے زمین پر آ کر جو اللہ کی توحید کا کلمہ پڑھایا کبھی غور کرو کہ وہ کلمہ کیا تھا ۔
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اَدَمُ صَفِىُّ اللّٰهِ
یہ جناب آدم ع نے کلمہ پڑھایا۔ اپنی امت کو
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ نُوْحٌ نَجِىُّ اللّٰهِ
یہ جناب نوح ع نے کلمہ پڑھایا ۔
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُوْسٰى كَلِيْمُ اللّٰهِ
یہ جناب موسیٰ ع نے کلمہ پڑھایا ۔
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ اللّٰهِ
یہ جناب ابراہیم ع نے کلمہ پڑھایا ۔
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اِسْمَاعِيْلُ ذَبِيْحُ اللّٰهِ
یہ جناب اسماعیل ع نے کلمہ پڑھایا ۔
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ عِيْسٰى رُوْحُ اللّٰهِ
یہ جناب عیسٰی ع نے کلمہ پڑھایا ۔
تو سارے انبیاء نے اللہ کی توحید پہنچائی نا اور ان کی امتوں نے جو کلمہ پڑھا وہ اپنے اپنے زمانے کے نبیوں کا کلمہ پڑھا وہ اپنے اپنے زمانے کے نبیوں کا کلمہ پڑھا جناب آدم ع کی امت نے اپنے نبی کا کلمہ پڑھا ۔ جناب نوح ع کی امت نے ان کا کلمہ پڑھا ۔ جناب ابراہیم ع کی امت نے ان کا کلمہ پڑھا ۔ جناب اسماعیل ع کی امت نے ان کا کلمہ پڑھا ، جناب موسیٰ ع کی امت نے ان کا کلمہ پڑھا ۔
بھئی ! یہ امتوں نے تو اپنے زمانے کے نبیوں کے کلمے پڑھے ہیں لیکن عرفان حیدر عابدی تو یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ جناب آدم ع نے کس کا کلمہ پڑھا ؟
توجہ ہے ؟ کبھی اس رخ سے بھی غور کریں کہ چلیے سارے انبیاء کی امتوں نے تو اپنے نبیوں کا کلمہ پڑھا لیکن خود ان انبیاء نے کس کا کلمہ پڑھا ۔ تجسس کرو تشکر کرو ، غور کرو ، فکر کرو ۔
بڑی توجہ دوستو ! قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں ایک فیصلہ ! ان انبیاء نے کس کا کلمہ پڑھا ؟ تو قرآن مجید کی آیت میثاق اعلان کر رہی ہے ۔
سورة آل عمران آیت ۸۱ “اے رسول ! یاد کرو اس وقت کو کہ جب خدا نے تمام انبیاء ع سے اقرار لیا کہ ہم تم کو جو کچھ کتاب اور حکمت دیں اس کے بعد تمہارے پاس کوئی رسول ص آۓ جو کتاب تمہارے پاس ہے اس کی تصدیق کرے تو دیکھو تم ضرور اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا اور خدا نے فرمایا : کیا تم نے اقرار کر لیا اور ان باتوں پر جو ہم نے تم سے اقرار لیا تم نے میرے عہد کا بوجھ اٹھا لیا ؟ سب نے عرض کیا : ہم نے اقرار کیا اور خدا نے فرمایا : اچھا تو تم آپس میں ایک دوسرے کے گواہ رہنا اور تمہارے ساتھ میں بھی ایک گواہ ہوں” ۔
دیکھئے ! میں اکثر کہتا ہوں نا کہ آیتوں سے سرسری نہیں گزرنا چاہیے اس لیے کہ آیتیں حکمت کا خزانہ ہوتی ہیں علم کا مدینہ ہوتی ہیں ۔ ایک ایک لفظ پر ٹھہر ٹھہر کر اگر آدمی توجہ کرے نا اور ساری عمر میں ایک آیت کے حقیقی مفہوم تک پہنچ جاۓ تو معصوم کا فرمان یہ ہے کہ جیسے عمر نوح میسر آئے اور وہ قرآن مجید کی ایک آیت میں صحیح تدبر کرے اور مر جاۓ تو وہ عالم کی موت مرے گا ( صلواۃ )
تو آپ توجہ فرمائیں ! ارشاد ہورہا ہے : “میرے حبیب یاد کرو وہ وقت” ۔
یہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے کہ قرآن مجید میں جتنی میثاق کی آیتیں ہیں نا ان کا تعلق اس زمانے اور اس دھر سے نہیں ہے بلکہ جتنی بھی آیتیں ہیں میثاق کی ان سب کا تعلق عالم زر سے ہے ۔ عالم نور سے ، اس کائنات کی خلقت سے جو کچھ معاہدے ہوتے ہیں نا اللہ اور بندوں کے درمیان اور جو پورے قرآن مجید میں یاد دہانیاں ہیں ان یاد دہانیوں کو آیات میثاق کہا جاتا ہے اور پورے قرآن مجید میں پینتین مقام پر ایسی آیات موجود ہیں ۔
یہاں بھی کہا جا رہا ہے ۔ ”میرے حبیب ! یاد کرو اس وقت کو” ۔ بھئی ! یاد کسے کرایا جاتا ہے ؟ جو اس وقت موجود ہو ۔ ( نعرہ حیدری )
توجہ ہے نا !
تو یاد تو اسے کرایا جاتا ہے جو اس موقع پر موجود ہو ، بعد میں آنے والے کو یاد تو نہیں کرایا جاتا ۔ یاد کرو وہ وقت ! تو یہ یاد دہانی تو اسے کرائی جاتی ہے جو موجود ہو ، اس وقت اب یہاں پر اللہ تعالی فرما رہا ہے : ”میرے حبیب ! یاد کرو وہ وقت جب ہم نے سارے انبیاء سے عہد لیا تھا ، میثاق لیا تھا کہ تمہیں اس شرط پر کتاب و حکمت عطا کی جاتی ہے کہ جب آخر میں ایک مصدق نبی ص آۓ گا تو تم اس پر ایمان بھی لاؤ گے ، اس کی نصرت بھی کرو گے” ۔
تو اب تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب عالم ارواح میں جناب آدم ع سے لے کر جناب عیسیٰ ع تک ایک کم ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو تاج نبوت عطا کیا جا رہا تھا تو شرط یہ رکھی گئی تھی کہ پہلے اس آخری نبی ص پر ایمان لاؤ ۔ ( نعرہ حیدری )
توجہ ہے نا ! عزیزان محترم ! اب اس مسئلے میں ملت اگر غور کرے اور ذرا سا عرق ریزی سے تجسس سے ، جستجو سے کام لے تو اپنی چودہ سو برس سے مکمل ہونے والی سیرت نبی ص کی ساری کتابیں اٹھا کر بحر اوقیانوس میں ڈال دو ، اس لیے کہ قرآن کی ایک آیت ان ساری کتابوں کو مستند کرتی ہے ۔
حبیب ! یاد کرو وہ وقت جب ہم نے سارے انبیاء سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہیں کتاب و حکمت اس بات پر عطا کی جائے گی کہ جب آخر میں ایک مصدق نبی آۓ گا تو تم اس پر ایمان بھی لاؤ گے۔اس کی نصرت بھی کرو گے – خدا نے فرمایا ! تم سب اقرار کرتے ہو ؟ کس کا ؟ اس مصدق رسول ص کی نبوت کا ۔ کیا تم سب اقرار کرتے ہو ؟ “سب نے عرض کیا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔”
دیکھئے ! دونوں کا وجود سامنے آ رہا ہے ۔ ہم نے پوچھا ان سے : عالم ارواح میں ، عالم نور میں ، عالم ذر میں ، عالم میثاق میں ۔ یہ چار لفظ ہیں جو استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ( 1 ) عالم ارواح ( 2 ) عالم نور ( 3 ) عالم ذر ( 4 ) عالم میثاق ۔ اس عالم ارواح میں ، عالم نور میں ، عالم ذر میں ، عالم میثاق میں ہم نے پوچھا ، کہ کیا تم سب اقرار کرتے ہو اس مصدق نبی ص کی نبوت کا ؟
ایمان لاتے ہو ؟ “سب نے اکٹھے ہو کر عرض کیا : ہم اقرار کرتے ہیں” ۔
تو اب میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں ملت کے ہر ذہین افراد سے اور سیرت النبی ص پر کتابیں لکھنے والوں سے کہ قرآن کی یہ آیت کہاں لے جاؤ گے ۔ جسے دیکھو وہ یہی کہے گا کہ سب سے آخر میں آئے تھے اور آنے کے بعد بھی چالیس برس تک نبی نہیں تھے ( معاذ اللہ )
اچھا ! اقرار کیا تھا ؟ سب سے آخر میں آئے تھے اور آنے کے بعد بھی چالیس برس تک نبی نہیں تھے تو قرآن کی یہ آیت کہاں لے کر جاؤ گے کہ حبیب ! یاد کرو وہ وقت جب ہم نے سارے انبیاء ع سے تمہاری نبوت کا اقرار لیا تھا اور سب نے اقرار کیا تھا ۔ کاہے کا اگر نبی ہی نہیں تھے تو کاہے کا اقرار تھا ؟ نبوت ہی کا اقرار کیا تھا نا ۔۔ جملہ کیا کہا ؟ “سب نے عرض کیا : ہم اقرار کرتے ہیں” ۔
جب سب نے اقرار کر لیا ۔ تو کہا ! “بس گواہ ہو جاؤ” ۔ “اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی دینے والوں میں شامل ہوں” ۔ “یاد رکھو ! اگر کسی نے بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ۔ اس میثاق کو توڑا تو تمہاری نبوتیں تو ایک طرف تم سب کے سب فاسق ہو جاؤ گے” ۔ ( سورۂ آل عمران : آیت ۸۲ )
بہت توجه ! یاد رکھو ! اے گروہ انبیاء اگر تم میں سے کسی نے بھی اس معاہدے کی خلاف ورزی کی چوں کہ تمہیں اس شرط پر تو نبی بنایا جا رہا ہے کہ تم اس کے امتی بنو ۔ پہلے امتی اس وقت بنو گے جب پہلے اس کا کلمہ پڑھو گے ۔ تو جب ایمان لاۓ تو پہلے سارے انبیاء ع نے اس آخری نبی ص کا کلمہ پڑھا ہوگا نا ۔
عزیزان محترم ! توجه ! تو فیصلہ تو ہو گیا نا کہ جہاں سے ہم نے تقریر کا آغاز کیا تھا کہ جناب آدم ع سے لے کر جناب عیسیٰ ع تک کے تمام نبیوں کی امتوں نے اپنے اپنے نبیوں کا کلمہ پڑھا لیکن ان سارے نبیوں نے ہمارے نبی ص کا کلمہ پڑھا ۔
جناب آدم ع کی امت کا کلمہ تھا ۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اَدَمُ صَفِىُّ اللّٰهِ
جناب موسیٰ ع کی امت کا کلمہ تھا ۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُوْسٰى كَلِيْمُ اللّٰهِ
جناب ابراہیم ع کی امت کا کلمہ تھا ۔ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ اِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ اللّٰهِ
مگر ان سارے نبیوں کا کلمہ تھا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ( نعرہ حیدری )
تو جب ایک لمحہ بھی اس کائنات ہستی کا اقرار نبوت محمد ص سے خالی نہیں ہے ۔ تو جناب آدم ع کی اولاد کو یہ حق کس نے دے دیا ہے کہ وہ کتابوں میں لکھ کر چلے جائیں کہ چالیس برس کے بعد بنے ۔
اگر اس وقت ہمارے نبی ص نبی نہیں تھے تو انبیاء نے کس کا کلمہ پڑھا تھا ؟
شانِ رسول خدا (ص)
حواله كتاب: مجالسِ پنجتن پاک ع
علامہ عرفان حیدر عابدی کی یادگار مجلس
Click Here For All Articles
اگر آپ اس کتاب کو مکمل پڑھنا چاہتے ہیں تو آج ہی اپنا آرڈر بک کرائیں اور گھر بیٹھے حاصل کریں
علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع , علامہ عرفان حیدر عابدی , شانِ رسول خدا (ص) , مجالسِ پنجتن پاک ع