پیغمبر اکرم (ص) نے میاں بیوی کے درمیان صلح کروائی
خولہ اور اوس مسلمان میاں بیوی تھے ، جو مدینہ میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ ایک دن اس کا اپنی بیوی پر دل آیا تو وہ اس کے پاس ہم بستری کے لیے گیا۔ عورت پر لازم ہے کہ اپنے شوہر کی خواہش کا احترام کرے لیکن بیوی نے مثبت جواب نہ دیا ۔ اوس غضے میں آ کر طلاق دینے کی فکر میں پڑ گیا ۔ اس نے رسم جاہلیت کے مطابق کہا : “تو میرے لیے میری ماں کی پشت کے مانند ہے” ۔
اس کے بعد جب پشیمان ہوا تو اپنی بیوی سے کہنے لگا : میرے خیال میں تم میرے اوپر حرام ہوگئی ہو ؟ خولہ یہ بات سن کر پریشان ہوئی اور کہا : رسول خدا ص کی خدمت میں جاؤ اور اس بارے میں آپ ص سے پوچھو ۔ شوہر نے شرم ساری کا اظہار کیا ۔
خولہ نے کہا : مجھے اجازت دو ، میں جا کر پیغمبر اکرم ص سے پوچھتی ہوں ۔ اوس نے اجازت دی ، خولہ رسول خدا ص کی خدمت میں شرف یاب ہوئی اور سارا واقعہ آں حضرت ص کی خدمت میں عرض کیا
پیغمبر اکرم ص نے فرمایا : تو اس پر حرام ہو چکی ہے ۔
عورت نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا : مجھے اس خدا کی قسم جس نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے ، میرے شوہر نے طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ وہ میرے بچوں کا باپ ہے ، میں سب سے زیادہ اسے چاہتی ہوں ۔
اگر اس کا کوئی حل ہے تو ارشاد فرمائیں ۔ پیغمبر اکرم ص نے فرمایا : تو اپنے شوہر پر حرام ہو چکی ہے اور در حال حاضر تیری مشکل حل کرنے کے لیے میرے پاس کوئی دستور نہیں ہے ۔
خولہ نے کئی بار پیغمبر اکرم ص کی طرف رجوع کیا ، رنجیدہ خاطر ہوئی اور کہا : میں اپنی اس بے کسی و بے چارگی کا شکوہ خدا کی بارگاہ میں کرتی ہو ، خداوند ! اس مشکل سے میری نجات کا ذریعہ اپنے پیغمبر کی زبان پر جاری کر ۔۔
اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر گیا کہ ایک دن سورہ مجادلہ کی پہلی چار آیتیں آں حضرت ص پر نازل ہوئیں ، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ شوہر پر لازم ہے کہ کفارہ کے عنوان سے ایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ دن روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اس کے بعد اپنی بیوی کی طرف رجوع کرے ۔
اس ماجرے میں میاں بیوی دونوں کی تقصیر تھی ۔عورت کی اس اعتبار سے غلطی تھی کہ اس نے شوہر کی خواہش کا احترام نہ کیا اور مرد کی تقصیر یہ تھی کہ وہ بہت جلد اپنے آپ سے باہر ہو گیا ، یعنی ان لوگوں نے اپنے لیے یہ مشکل خود پیدا کی تھی ۔
یه داستان در حقیقت میاں بیوی کو یہ درس سکھاتی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ایک دوسرے کی حرمت کا پاس رکھیں ۔ اوس پیغمبر اکرم ص کے پاس آیا اور کہا : میں ان تینوں کفاروں میں سے کوئی ایک بھی ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں ۔
رسول خدا ص نے اس کے لیے تیسرے کفارہ یعنی ساٹھ مساکین کو طعام دینا تجویز کیا اور اسے 45 کلو گرام طعام عطا کیا ۔ اوس نے اس 45 کلو گرام اناج سے ساٹھ مسکینوں کا کھانا تیار کر کے ان کے حوالے کر دیا اور ازسرِ نو اپنی زندگی کا آغاز کیا ۔
( تفسیر مجمع البیان ، ج ۹ ، ص 246 سے اقتباس ) پس یوں پیغمبر اکرم ص نے زن و شوہر کے درمیان صلح کرانے میں مداخلت کی اور ان کی فکری رہنمائی اور مالی مدد کی اور انھیں ان کی اچھی زندگی کی طرف پلٹا دیا ۔
Click Here For All Articles
اس آرٹیکل میں موجود تمام مواد کو درج ذیل کتب سے لیا گیا ہے
حوالہ کتاب : قصص الانبیاء ع
اگر آپ اس کتاب کو مکمل پڑھنا چاہتے ہیں تو آج ہی اپنا آرڈر بک کرائیں اور گھر بیٹھے حاصل کریں
Chat On WhatsApp
EnterWrite to Ahsan Raza