امام حسین علیہ السلام اور مسلم بن عقیل ع کی ملاقات
جب امام عالی مقام نے جناب مسلم ع کو کوفہ جانے کا حکم دیا تو مسلم ع امام ع کی خدمت اقدس سے نکل کر ایک طرف بیٹھ گئے اور بہار کے بادل کے برسنے کی طرح زار و قطار رونا شروع کیا اور بے قراری کا اظہار کیا گیا تو کہا گیا کہ اے آل عقیل کی روشن پیشانی ! کیونکر آنسو بہا رہے ہو ؟
انھوں نے فرمایا : میں پیغمبر ص کی آنکھوں کے نور اور فاطمہ زہراء س کے دل کے سرور امام حسین ع سے جدائی پر رو رہا ہوں کہ کافی عرصہ سے ان کے زیر تربیت ہوں اور آپ سے محبت کے راستے پر ہی جا رہا ہوں لیکن یہ خوف لاحق ہے کہ شاید پھر امام حسین ع کی زیارت نہ کرسکوں بالآخر سفر کا سامان اکٹھا کیا اور وداع کے لیے آل عقیل اور اہل و عیال کے گھر آئے ، تمام کو دیکھا اور ان سے خدا حافظ کہا ۔۔ دوسری مرتبہ پھر وداع کے لیے گھر آۓ اور خود کو امام حسین علیہ السلام کے قدموں میں ڈال دیا اور حسرت کے طور پر حضرت کے پاؤں چومے جس طرح جبریل ع نے حضرت ع کے پاؤں پر بوسہ دیا اور ہاتھوں کو چومتے تھے ۔ یا جیسے پیغمبر خدا ص اور فاطمہ زہراء س آپ کو بوسے دیتے تھے اسی طرح انھوں نے بوسہ دیا اور عرض کیا :
آقا جان ! آپ کے فرمان کے مطابق وداع کرتا ہوں ، مجھے معذور سمجھیں ، میں چاہتا ہوں کہ آپ کے جمال سے کامل توشہ حاصل کرلوں
امام ع روئے اور مسلم ع سے بہت پیار کیا اور دعائے خیر فرمائی۔مسلم ع محضر امام ع سے رخصت ہوئے ، آستانہ کا بوسہ دیا اور روتی آنکھوں سے رکاب میں پاؤں رکھا ۔ آپ ع مدینہ کی طرف اور وہاں سے کوفہ کی طرف عازمِ سفر ہوۓ ۔ آل عقیل کے جوانوں نے الوداع کیا ، پھر مسلم ع نے ان کو نہ دیکھا اور نہ انھوں نے مسلم کو دیکھا ۔
مدینہ کے راستے کوفہ روانگی
جب مسلم نے امام حسین علیہ السلام سے اجازت مانگی اور امام ع عالی مقام کی نیابت کے لیے عازم سفر ہوئے اور کوفیوں کے تین قاصدوں عمارہ ، عبدالرحمن اور قیس حکم امام ع سے ان کے ہمراہ روانہ ہوئے اور مسلم اور ساتھیوں کو مدینہ سے کوفہ جانا تھا ۔ جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ کی مسجد میں نماز پڑھی اور قبر مطہر کی زیارت کی ۔ پھر گھر آئے اور اپنے ( اہل بیت ) اور دوسروں سے وداع کیا اور باہر آ گئے ۔
شیخ مفید ارشاد میں لکھتے ہیں : مسلم ع نے دو شخصوں کو رہنمائی و راستہ دکھانے کے لیے اپنے ساتھ لگایا اور ان کو اجرت دی اور کوفہ کی طرف سفر شروع کیا ۔ دو شخص جو راہنما تھے وہ راستہ سے بھٹک گئے اور غلط راہ پر جا نکلے اور چلتے رہے ۔ جب بہت مسافت طے کی جس میں پانی تھا نہ سایہ تو ان پر شدید تشنگی غالب ہوئی کہ وہ چلنے سے رک گئے بالآخر دو شدید تشنگی کی وجہ سے فوت ہو گئے لیکن حضرت مسلم سلام اللہ علیہ نے اپنے آپ کو کسی طرح اصلی راہ پر پہنچایا اور کچھ مسافت طے کر کے مضیق نامی جگہ پر پہنچے جہاں پانی موجود تھا ۔ حضرت مسلم ع یہاں اترے اور توقف کیا اور اپنی پیاس بجھائی ۔
یہاں سے ایک خط حضرت امام علیہ السلام کی طرف قیس بن مسھر صیداوی کے ذریعے بھیجا ۔ خط کا مضمون یہ تھا
میں اپنے دو رہنماؤں کے ساتھ مدینہ سے کوفہ کو روانہ ہوا جو راستہ بھول گئے اور غلط راستے پر چل نکلے ۔ وہ جس قدر چلتے گئے پانی سے دور ہوتے گئے ، پیاس کی شدت کی وجہ سے میرے دونوں راہنما فوت ہو گئے لیکن میں نے بمشکل مقام مضیق پر اپنے آپ کو پہنچایا تاکہ پیاس بجھاؤں ۔
یہ خط اس مقام سے آپ کو لکھ رہا ہوں اور چونکہ دونوں راہنماؤں کی وفات کو بری فال سمجھتا ہوں لہذا اگر آپ کی رائے میں کوئی تبدیلی آئی ہے تو ارشاد فرمائیں تاکہ ہم اس سفر سے رک جائیں بلکہ کسی اور کو کوفہ کی طرف روانہ کیا جاۓ ۔ امام علیہ السلام نے جناب مسلم ع کے خط کا جواب ان الفاظ سے دیا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم ! امابعد !
اے میرے چچازاد مسلم ! آپ کی تحریر سے آپ کی کمزوری اور پریشانی نظر آتی ہے لیکن میری رائے یہی ہے کہ جو حکم آپ کو دیا گیا ہے اس پر عمل کریں اور آپ وہاں پہنچیں ۔ والسلام !
جب امام علیہ السلام کا خط جناب مسلم کے پاس پہنچا تو فرمایا : اے دوستو ! میں اپنی جان کا خوف نہیں رکھتا بلکہ اس کو فال بد سمجھتے ہوۓ ، یہ استنباط کیا کہ شاید امام کی نظر بدل گئی ہو ۔ اس لیے امام علیہ السلام کو واقعہ کی اطلاع دی ۔ ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں امام ع کے حکم سے سرتابی کروں ۔ پس فورا اس منزل سے آگے سفر شروع کیا ۔
تاريخ الفتوح ( ترجمہ تاریخ اعثم کوفی ) میں آیا ہے کہ مسلم بن عقیل ع نے سفر کے دوران میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہرن کا شکار کر رہا ہے ۔ اس نے ہرن کو گرایا اور اس کو ذبح کیا تو اس کو مسلم ع نے نیک فال سمجھا اور کہا : ان شاء اللہ میں دشمنوں کو قتل کروں گا اور ان کو ذلیل و خوار کروں گا ۔
اس مواد کو درج ذیل کتاب سے لیا گیا ہے حوالہ کتاب :
مدینہ سے مدینہ تک (ص 90 , 91 , 92)
اگر آپ اس کتاب کو مکمل پڑھنا چاہتے ہیں تو آج آپنا آرڈر بک کرائیں اور گھر بیٹھے حاصل کریں