مطالبہ فدک میں چند راز
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کریں کہ سیدہ نساء العالمین کائنات کی پارسا ترین خاتون تھیں ۔ انھیں دنیاوی زرق و برق سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُن کا قلب مبارک اس فانی دنیا اور اُس کے جلوؤں سے دُور بہت دور تھا۔ کیا وجوہات تھیں کہ جن کی بنا پر خاتونِ جنت نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے یہ تاریخی اقدام اٹھایا۔ آپ نے جاگیر فدک کے حصول کے لیے اس قدر متابعت اور اصرار کیوں فرمایا ؟ جب کہ آپ کا نفس ان مادی اشیاء یعنی کھیت و کھلیان اور باغ و بوستان کی حدود و قیود اور اُن کی ملک و ملکیت سے آزاد تھا۔ خاتونِ جنت اور اُن کے خاندان کی دیدگاہ میں یہ دُنیا اور اُس کی قیمت خنزیر کی ہڈی کے ٹکڑے سے جو ایک مجذوم کے منہ میں ہو، حقیر تر تھی اور مچھر کے پر سے پست تر تھی۔
آپ کے ہاں وہ کون سا عامل تھا جس کی بنیاد پر آپ علیہ السلام نے جاگیر فدک کا مطالبہ فرمایا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا عالمین کی عورتوں کی سیدہ و سالار تھیں۔ آپ انسانیت و معنونیت میں بلند و بالا مقام رکھتی تھیں۔ آپ بخوبی جانتی تھیں کہ وہ اپنے حق کے حصول کے لیے جس قدر شدید سے شدید تر جدوجہد کریں انھیں اپنا حق ملنے والا نہیں ہے۔ یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ جب حالات یہ تھے تو پھر سیدہ طاہرہ صدیقہ سلام اللہ علیہا نے یہ تاریخی اقدام کیوں اُٹھایا ؟ ان سوالات کے جوابات ممکنہ حد تک جو اذہان میں آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
پہلا جواب
پہلا جواب یہ ہے کہ حکومت نے فوراً حضرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ملکیت و میراث کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس اقدام سے حکومت کا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت رسول (ص) کو اقتصادی و مالی طور پر کمزور کر دیا جائے تا کہ امام علی علیہ السلام فقر و نہی دستی سے دو چار ہو جائیں اور اُن کی مرکزیت ختم ہو جائے اور جو لوگ اُن سے مالی استفادہ کرتے ہیں وہ اُن سے منتشر ہو جا ئیں۔ اس طرح اُن کی مادی و دنیاوی جاہ و منزلت باقی نہ رہے۔ کیونکہ رسول اللہ (ص) کی زندگی میں جب کچھ لوگوں نے رسول اللہ (ص) کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان سے اُن کی سازش کو بے نقاب کر دیا تھا۔
لا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا (سوره منافقون: آیت ۷)
جو لوگ رسول اللہ (ص) کے اردگرد موجود ہوں تو کوئی چیز خرچ نہ کیجیے تا کہ وہ پراگندہ ہوجائیں۔
دوسرا جواب
فدک کی زمینوں اور باغات کا سالانہ محصول کوئی معمولی محصول نہیں تھا۔ ابن ابی الحدید نے اپنے زمانے کی بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فدک کے کھجور کے باغات کوفہ کے کھجور کے باغات کے برابر تھے۔ علامہ مجلسی نے بیان کیا ہے کہ جاگیر فدک کی سالانہ آمدنی چوبیس ہزار دینار تھی ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ستر ہزار دینار سالانہ آمدنی تھی۔ شاید سالانہ محصول کا اختلاف سالوں کے اختلاف کی بنیاد پر ہو۔ فدک اور اس کی زمینوں کی سالانہ آمدنی ایک بہت بڑی مالی ثروت تھی کہ جس سے چشم پوشی کسی صورت میں بھی صحیح نہیں تھی۔
تیسرا جواب
حکومت کا خیال تھا کہ اگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا جاگیر فدک والا مطالبہ تسلیم کرتے ہیں تو اس مطالبے کے تسلیم ہونے کے بعد وہ اپنے شوہر نامدار کے لیے خلافت و حکومت کا مطالبہ کریں گی ۔ کیونکہ جس طرح فدک اور دوسری زمینیں اُن کے والد گرامی رسول اللہ (ص) کی ملکیت تھیں اس طرح ولایت و حکومت بھی رسول اللہ (ص) کی ملکیت تھی تو انھیں اُن کا یہ مطالبہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
اس بارے ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ میں نے بغداد کے مدرسہ غربیہ کے استاد علی فارقی سے پوچھا کہ ” کیا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنے مطالبہ جاگیر فدک میں حق پر تھیں؟”
اُس نے کہا: جی ہاں، وہ حق پر تھیں۔
میں نے سوال کیا پھر کیا وجہ تھی کہ جب نبی اکرم (ص) کی دختر اپنے مطالبہ میں حق پر تھیں تو حکومت نے اُن کا حق اُن کے حوالے کیوں نہ کیا؟ استاد علی فارقی صاحب دانش و بینش آدمی تھے، انھوں نے تقسیم کے ساتھ کہا اور نہایت ہی حکیمانہ وظریفانہ گفتگو کی۔
اگر حکومت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا جاگیر فدک کا مطالبہ تسلیم کر لیتی تو وہ دوسرے دن اُن کے پاس آتیں اور اپنے شوہر نامدار کے لیے حکومت و خلافت کا مطالبہ کرتیں کہ حکومت و خلافت اُن کے شوہر کا حق ہے، وہ واپس کیجیے۔ پھر حکومت کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہتا کیونکہ جب وہ اپنے پہلے مطالبہ میں حق پر تھیں تو اپنے دوسرے مطالبہ میں بھی حق پر ہوتیں، انھیں کسی گواہ کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔
چوتھا جواب
ہمیشہ حق طلب کیا جاتا ہے ، حق بغیر مطالبے کے نہیں ملتا۔ جس انسان کا حق غصب کیا گیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حق کو طلب کرے کیونکہ وہ اس کا حق ہے۔ زہد و زہادت کے ہوتے ہوئے بھی حق طلبی ضروری ہے۔ اس سے زہد کی نفی نہیں ہوتی۔ اپنے حق پر خاموشی جائز نہیں ہے بلکہ ظلم پروری ہے۔
پانچواں جواب
اگر انسان زاہد ہو، تارک الدنیا ہو اور آخرت کی طرف متوجہ ہو پھر بھی اُسے دنیاوی مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے ذاتی اخراجات، اپنی شخصیت و آبرو کی حفاظت کے لیے مالِ دنیا کی احتیاج ہوتی ہے کیونکہ انسان اسی مال دنیا سے صلہ رحمی کر سکتا ہے اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اپنی آخرت بنا سکتا ہے۔ کیا آپ نے رسول اللہ (ص) کی سیرت نہیں پڑھی؟ آپ کائنات کے زاہد ترین انسان تھے۔
جب حضرت خدیجتہ الکبری سلام اللہ علیہا کا مال آپ کے پاس آیا تھا تو آپ نے اُس مال سے اسلام کو تقویت دی تھی۔ گذشتہ صفحات میں یہ بحث آپ پڑھ چکے ہیں۔ خاندانِ اہلِ بیت علیہ السلام کی یہی غرض تھی کہ وہ اپنی میراث و ملکیت سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کر کے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کریں۔
چھٹا جواب
کبھی حکمت و دانش کا تقاضا ہوتا ہے کہ انسان اپنے غصب شدہ حق کا مطالبہ کرے جب وہ اپنے حق کو طلب کرتا ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت کے ساتھ ضرور ہمکنار ہوتا ہے۔ یا تو وہ اپنی حق طلبی میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اپنا ضائع شدہ حق پالیتا ہے یا وہ کامیاب نہیں ہو پاتا لیکن اس صورت میں اُس پر ہونے والا ظلم ظاہر ہو جاتا ہے اور اُس کی مظلومیت دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔ ماحول و معاشرہ میں اس کی مظلومیت واضح ہو جاتی ہے۔ ایک مظلوم اپنی مظلومیت سے ہر عصر اور ہر نسل کو پیغام دیتا ہے کہ اُس پر ظلم ہوا ہے اور فلاں نے اُس پر ظلم کیا ہے۔ وہ ظالم اپنے دعویٰ میں صادق نہیں ہے۔
ساتواں جواب
صاحبان فکر کی کوشش و کاوش ہوتی ہے کہ لوگوں کے قلوب کو اپنی طرف متوجہ کریں تو وہ اس امر میں مال و ثروت کو استعمال کرتے ہیں، وعدے کر کے اُن کا ایفا کرتے ہیں۔ خوش اخلاقی اپناتے ہیں۔ ان طریقوں سے وہ قلوب کو منفعل کرتے ہیں، لیکن تمام وسائل میں افضل ترین وسیلہ جو قلوب کو اپنی طرف کھینچتا ہے وہ اظہار مظلومیت ہے، کیونکہ قلوب مظلوم سے متاثر ہوتے ہیں اُس کے لیے محبت پیدا ہوتی ہے اور اُس پر ظلم کرنے والے کے لیے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ طریقہ اور وسیلہ سب سے زیادہ مؤثر اور کامیاب ہے۔
ان کے علاوہ اور اسباب و عوامل بھی ہیں، جن کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجوہات تھیں کہ جن کی بنا پر حضرت فاطمہ زہر سلام اللہ علیہا نے اپنے حق کے لیے قیام فرمایا اور رسول اللہ (ص) کی مسجد کا رُخ کیا۔
اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہےاس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے
حوالہ کتاب : فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا (طلوع سے غروب تک)
اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں
فدک فدک فدک فدک فدک