قتل حسین علیہ السلام
ابو بصیر راوی ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ ہشام بن عبد الملک نے میرے والد کو اپنے پاس شام طلب کیا۔ جب میرے والد ماجد علیہ السلام کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں اور یہ مسئلہ اتنا عظیم ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کو اس کا پوچھنا زیب نہیں دیتا اور اس مسئلہ کا جواب بھی آپ کے علاوہ کسی اور کو زیب نہیں دیتا۔ میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: آپ نے جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لیں۔ہشام نے کہا: آپ یہ بتائیں کہ جس رات امیر المومنین علی بن ابی طالب کی شہادت ہوئی تو کوفہ کے علاوہ باقی شہروں میں شہادت کی خبر کیسے پہنچی اور کس علامت سے لوگوں نے معلوم کیا کہ علی علیہ السلام شہید ہو گئے ہیں؟ نیز یہ بھی واضح کریں کہ کیا وہ علامت صرف حضرت علی سے مخصوص تھی یا کسی دوسرے کے لیے بھی وہ علامت ظاہر ہوئی ؟ میرے والد علیہ السلام نے جواب دیا: جس شب ہمارے دادا علی بن ابی طالب شہید ہوئے تو اس رات پوری روئے زمین سے جس بھی پتھر کو اٹھایا گیا اس کے نیچے سے تازہ خون بر آمد ہوا اور یہ علامت طلوع فجر تک قائم رہی تھی ۔
اور یہ علامت صرف حضرت علی کے لیے ہی نمودار نہیں ہوئی بلکہ ان سے قبل حضرت موسی کے بھائی ہارون اور ان کے جانشین یوشع بن نون کی شہادت کے وقت بھی ظاہر ہوئی اور جس رات حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا اس رات بھی یہ علامت نمودار ہوئی اور حضرت عیسی کے وصی شمعون بن حمون الصفا جب قتل ہوئے تو مذکورہ علامت ظاہر ہوئی تھی اور جس دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو گیارہ محرم کی شب کو بھی یہ علامت ظاہر ہوئی تھی۔ یہ سن کر ہشام کا چہرہ غصہ سے لال پیلا ہو گیا اور اس نے ارادہ کیا کہ میرے والد کو اذیت پہنچائے۔ میرے والد نے اس کے تیور دیکھ کر فرمایا: بادشاہ کو اس میں ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جو کچھ اس نے پوچھا ہے اسے اس کا صحیح صحیح جواب دیا گیا ہے اسی لیے بادشاہ کو حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔
ہشام نے کہا: اگر آپ پسند کریں تو آپ اپنے گھر جاسکتے ہیں۔ میرے والد اٹھ کر روانہ ہونے لگے تو ہشام نے ان سے کہا: آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ میرے جیتے جی آپ لوگوں کو یہ حدیث نہیں سنائیں گے ۔ ( کامل الزیارات ص ۷۵) ابو بصیر بیان کرتے ہیں کہ بیت المقدس کے ایک رہنے والے نے ہم سے کہا کہ ہمیں گیارہ محرم کی رات کو ہی پتہ چل گیا تھا کہ حسین بن علی شہید ہو چکے ہیں ۔ میں (راوی) نے پوچھا: تمہیں اتنی جلدی کیسے پتہ چل گیا تھا؟ اس نے کہا کہ ہم نے اس رات جو بھی پتھر اٹھایا تو اس کے نیچے ہمیں تازہ خون دکھائی دیا اور ہماری دیوار میں تین دن تک سرخ دکھائی دیتی تھیں اور تین دن تک خون کی بارش ہوتی رہی ۔
نصف شب کے وقت ہم نے کسی نادیدہ منادی کی یہ صداسنی کیا قاتلین حسین علیہ اسلام کا گروہ بھی قیامت کے دن اس کے نانا کی شفاعت کا امیدوار ہو سکتا ہے۔ خدا کی پناہ تمہیں احمد اور ابوتراب کی شفاعت کبھی نصیب نہ ہوگی۔ تم نے اسے قتل کیا جو کہ سواریوں پر سوار ہونے والے تمام افراد سے افضل تھا اور جو تمام جوانوں اور بوڑھوں سے بہتر تھا“۔ تین دن تک سورج کو گرہن لگا رہا۔ ستارے ٹوٹتے رہے۔ پھر چند دن بعد با قاعدہ طور پر ہمارے پاس شہادتِ حسین علیہ السّلام کی خبر پہنچی۔ زہری کا بیان ہے کہ جب امام حسین شہید ہوئے تو بیت المقدس میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تھا اس کے نیچے جوش مارتا ہوا خون بر آمد ہوتا تھا۔ ( کامل الزیارات، ص ۷۶ )
شافعی کا بیان ہے کہ قتل حسین علیہ سلام کے روز پوری دنیا میں جس بھی پتھر کو اٹھایا گیا تو اس کے نیچے سے تازہ خون برآمد ہوا اور اس دن آسمان سے خون کے قطرات کی بارش ہوئی جس کا نشان نباتات پر قائم ہو گیا جو کہ نباتات کے ختم ہونے تک باقی رہا۔مقتل خوارزمی میں ہند بنت جون سے روایت ہے۔ اس کا بیان ہے کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ ام معبد کے خیمہ میں تشریف لائے اور آپ نے اس کی لاغر بھیڑ کو اپنے دست مبارک سے دوہا تو آپ کی برکت سےاس نے بہت زیادہ دودھ دیا جسے تمام صحابہ نے پیا۔اس کے بعد آپ نے وہاں کچھ دیر آرام کیا۔ اس روز شدید گرمی تھی اور جب گرمی کچھ کم ہوئی تو آپ بستر سے اٹھے اور پانی منگوایا اور ہاتھ دھو کر کلی کی۔ خیمہ کے قریب عوج کا ایک خارزار درخت تھا۔
آپ نے تین بار کلی کر کے اس کا پانی اس درخت کی جڑوں میں ڈالا اور جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو فرمایا : اس درخت سے بہت سے عجیب امور ظاہر ہوں گے۔ اس کے بعد آپ کے صحابہ نے وضو کیا۔ آنحضرت نے دو رکعت نماز پڑھی۔ ہند کا بیان ہے کہ میں اور میرے خاندان کی لڑکیاں اس وقت تک کیفیت نماز سے ناواقف تھیں اس لیے ہمیں بڑا تعجب ہوا اور جب ہم صبح کو اٹھے تو ہم نے دیکھا کہ عوسج کی جھاڑی بلند و بالا درخت میں تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کے کانٹے گر گئے تھے اور شاخیں نکل آئی تھیں اور وہ سرسبز و شاداب درخت بن چکا تھا۔
بعد میں اس پر پھل آیا اور ہر پھل حجم میں کماۃ جیسا اور رنگ میں’ورس جیسا تھا اور اس سے عنبر کی سی خوشبو آتی تھی اور اس کا ذائقہ شہد جیسا تھا۔ اور جو بھوکا اسے کھاتا وہ سیر ہو جاتا اور جو پیاسا اسے کھاتا اس کی پیاس بجھ جاتی تھی اور جو غریب و مفلس اسے کھا تا وہ غنی بن جاتا تھا اور جو بیمارا سے کھا تا وہ تندرست ہو جاتا تھا اور جو حاجت مند ا سے کھاتا اس کا مطلب حل ہو جاتا تھا اور ہم اس کے پتے جس جانور کو کھلاتے تو وہ موٹا تازہ اور شیر دار ہو جاتا تھا۔ الغرض جس دن آنحضرت ہمارے ہاں تشریف لائے تھے اس دن سے ہمارے رزق مال میں برکت آگئی تھی ۔ اور ہمارے علاقہ میں ہر طرف ہریالی پھیل گئی تھی ۔
ہم نے اس درخت کا نام “مبارک” رکھا۔ دُور اور قریب سے لوگ ہمارے پاس آتے تھے اور اس درخت کے سایہ میں آرام کرتے تھے اور سفر کے لیے اس کی پتیاں زاد راہ بنا کر ساتھ لے جاتے تھے اور بیابانوں میں جہاں انہیں کھانا نہیں ملتا تھا وہ ان پتیوں کو غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔چنانچہ اس طرح سے کئی برس گزر گئے ۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ اس درخت کے میوے گر گئے، پھر جھڑ گئے۔ یہ حال دیکھ کر ہم سخت پریشان ہوئے ۔ چند روز بعد ہمیں پتہ چلا کہ جس دن یہ درخت متغیر ہوا تھا اس دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تھی ۔ اس کے بعد اس درخت نے پھر میوہ دیا جو پہلے میوؤں سے حجم میں کچھ چھوٹا تھا اور پہلے سے ذرا کم خوش مزہ تھا اور تمیں برس اسی حالت میں گزرے۔
پھر اچانک ایک صبح ہم نے دیکھا کہ اس درخت میں تمام کانٹے پیدا ہو گئے اور اس کے پتے گر گئے اور شاخوں سے تر و تازگی رخصت ہو گئی اور اس کے سب پھل گر گئے۔ کچھ دنوں بعد ہمیں پتہ چلا کہ جس دن اس درخت میں تبدیلی ہوئی تھی اسی دن امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت ہوئی تھی۔ امیر المومنین کی شہادت کے بعد اس پر میوہ نہ لگا۔ البتہ ہم پھر بھی اس سے استفادہ کرتے رہے۔ ہم اس درخت کے پتے توڑ کر بیماروں کو دیتے تھے جس سے وہ شفایاب ہو جاتے تھے۔
ایک عرصہ اسی حالت میں گزرا پھر جب ایک صبح کو ہم اٹھے تو ہم نے ایک ہولناک منظر دیکھا۔ اس درخت کی جڑوں سے تازہ خون نکل کر زمین پر بہہ رہا تھا اور اس کے پتے بھی مرجھا چکے تھے اور ہر پتے سے خون کے تازہ قطرے گر رہے تھے ۔ یہ منظر دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا کہ دنیا میں کوئی سنگین واقعہ پیش آیا ہے۔ ہم تمام شب غمگین ومحزون رہے اور کسی اہم خبر کے منتظر تھے ۔ جب رات اچھی طرح سے چھا گئی تو اس درخت کے نیچے سے رونے کی آواز میں بلند ہوئیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی عورت بین کر کے کہہ رہی ہو : “ہائے فرزند نبی ، ہائے فرزند وصی ، ہائے ہمارے محترم سرداروں کا آخری فرد” اس کے علاوہ اور بھی صدائیں آتی رہیں جو ہماری سمجھ سے باہر تھیں ۔ کچھ عرصے بعد ہمیں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی اطلاع ملی۔
اس کے بعد وہ درخت بالکل خشک ہو گیا اور ہوا اور بارش کے زور سے اس کی شاخیں ٹوٹ گئیں اور اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ عبد الله بن محمد انصاری کا بیان ہے کہ مدینہ طیبہ میں میری ملاقات دعبل خزاعی سے ہوئی اور جب ان کے سامنے اس درخت کا واقعہ بیان کیا گیا تو انہوں نے کہا: یہ واقعہ بالکل سچا ہے کیونکہ میرے باپ نے میرے دادا سے انہوں نے اپنی ماں سعیده دختر مالک خزاعی سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کے عہد امامت میں اس درخہ کو دیکھا تھا اور اس کا پھل بھی کھایا تھا۔
اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے
حوالہ کتاب: معجزات آل محمد ع اُردو ترجمہ مدینة المعاجز
اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں
قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین قتل حسین