امام حسن عسکری (ع) کے کمالات
ملا جامی رقم طراز ہیں کہ ایک شخص نے اپنے والد کے ساتھ امام حسن عسکری علیہ السلام سے ملاقات کا قصد کیا اور ارادہ یہ تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے 800 درہم قرض کا مطالبہ کریں گے۔ اتفاق سے حضرت علیہ السلام کا اس طرف سے گذر ہو گیا لیکن یہ دونوں آپ سے باخبر نہیں تھے ۔ آپ خود ان کے قریب گئے اور انھیں 800 درہم دے دیے جس پر ان دونوں کو سخت حیرت ہوئی کہ یہ دلوں کے حالات سے کس طرح باخبر ہو گئے۔
قیدی کیلئے دُعا کرنا
قید خانہ میں رہنے والے ایک قیدی نے آپ سے رہائی کی دعا کی درخواست کی اور غربت کا تذکرہ کرنے میں شرم محسوس کی تو آپ نے رہائی کے حق میں دعا فرمائی اور فرمایا کہ جس بات کا تم نے ذکر نہیں کیا ہے، اس سلسلہ میں عنقریب سو دینار بھیج دوں گا۔ ایک شخص نے آپ کو خط لکھا اور اس میں مشکوۃ کے معنی دریافت کیے اور اپنی حاملہ عورت کے سلسلہ میں فرزند نرینہ کی ولادت کی درخواست کی تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ مشکوۃ سے مراد قلب مرسل اعظم ہے اور خدا تجھے اولاد کے بارے میں صبر دے اور نعم البدل عطا کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ لڑکا مردہ پیدا ہوا اور خدا نے اس کے بعد دوسرا فرزند عطا فرمایا۔
امام سے ظہورِ امام عصر کا سوال
حسن بن ظریف نامی شخص نے ظہور امام عصر علیہ السلام کا وقت دریافت کیا تو فرمایا اس کا تعلق مصلحت الہی سے ہے اور تم نے بخار کے بارے میں سوال نہیں کیا تو اس کا علاج یہ ہے کہ یا نار کونی برداً وسلاما لکھ کر گلے میں لٹکا دو بخار زائل ہو جاۓ گا۔ واضح رہے کہ تفسیر عسکری براہ راست امام حسن عسکری علیہ السلام سے متعلق نہ بھی ہو تو بھی اس کتاب سے اس امر کا ثبوت بہرحال مل جاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے تفسیر کے بارے میں اس قدر تشریحات بیان فرمائی ہیں کہ ان کے مجموعہ سے ایک کتاب تفسیر تیار ہو سکتی ہے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ۔
سرکار دو عالم (ص) نے قرآن کے ساتھ اہلبیت طاہرین علیہ السلام کو اسی لیے چھوڑا تھا کہ وہ قرآن کے معانی و مطالب اور حقائق و معارف کی تشریح تفسیر کریں گے ورنہ اصل قرآن کے الفاظ تو امت اسلامیہ کے پاس کل بھی محفوظ تھے اور آج بھی محفوظ ہیں لیکن اس کے باوجود اسی قرآن سے 73 فرقے پیدا کر لیے گئے ہیں اور آج تک تفرقہ پردازی کا سلسلہ جاری ہے اور ہر ایک کا دعوی یہی ہے کہ اس کا مسلک و مذہب اسی قرآن مجید سے ہم آہنگ ہے اور باقی سارے مذاہ قرآن حکیم سے انحراف کے نتیجہ میں پیدا ہوۓ ہیں۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کو دیگر ائمہ طاہرین علیہ السلام کی طرح یہ تائید الہی بھی حاصل تھی کہ آپ لکھتے لکھتے قلم کو رکھ دیتے تھے تو بحکم الہی قلم خود بخود حرکت کرتا تھا اور عبارت مکمل ہو جاتی تھی اور یہ بھی کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے ،اس لیے کہ ائمہ طاہرین علیہ السلام سواۓ مشیت الہی کے اور کوئی قصد و ارادہ نہیں رکھتے تھے تو پروردگار نے بھی انھیں محل مشیت الہی قرار دے دیا تھا۔ایسی صورت میں وہ وہی لکھتے تھے جو خدا چاہتا تھا اور جب کام خدا کی مشیت کے مطابق ہی ہونا تھا تو قدرت کے لیے دونوں امکانات تھے۔ یہ بھی ممکن تھا کہ امام (ع) ہی کے دست مبارک کو ذریعہ قرار دے اور یہ بھی ممکن تھا کہ امام کی نیت خالص پر اعتماد کرکے دیگر وسائل غیبی سے اس کے مقصد کی تکمیل کر دے کہ بالآخر ان کا مقصد بھی وہی ہے جو مقصد پروردگار ہے ۔
امام حسن عسکری ع کا علم بالقرآن
امام حسن عسکری علیہ السلام کے علم بالقرآن کے بارے میں یہی ایک واقعہ کافی ہے کہ جب اس دور کے سر پر پھرے فلسفی اسحاق کندی نے تناقضات القرآن لکھنا شروع کی اور آیات کو یکجا کرکے یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ قرآن مجید کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے اور
وہ ایک مقام پر ایک بیان دیتا ہے اور دوسرے مقام پر اس کے بالکل برعکس بولتا ہے جب کہ یہ بات شان تنزیل کے بالکل خلاف ہے تو امام حسن عسکری علیہ السلام نے اسحاق کے ایک شاگرد سے فرمایا کہ تم اپنے استاد کو ایسی حرکت سے منع کیوں نہیں کرتے ہو۔ اس نے معذرت ظاہر کی تو آپ نے فرمایا کہ اچھا اس سے کم سے کم اتنا سوال تو کرو کہ یہ تضاد اور تناقض تمھارے سمجھے ہوۓ معانی میں ہے یا مراد الہی میں ہے۔ اگر مراد الہی میں ہے تو مراد الہی کے سمجھنے کا ذریعہ کیا تھا اور اگر تمھاری مجھ میں ہے تو صاحب کلام کسی کی سمجھ کا ذمہ دار نہیں ہوتا ہے ۔
شاگرد نے ایک دن موقع پا کر اسحاق سے یہ سوال کر دیا اور وہ مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اس نے صرف یہ سوال کیا کہ یہ بات تمھیں کس نے بتائی ہے؟ اس نے کہا کہ یہ میرے ذہن کی پیداوار ہے۔ اسحاق نے کہا کہ جو بات تمھارے استاد کے ذہن میں نہیں آئی ہے وہ تمھارے ذہن میں کہاں سے آگئی ہے؟ صحیح صحیح مدرک کا پتہ بتاؤ۔ اس نے کہا کہ مجھے یہ بات حضرت حسن عسکری علیہ السلام نے بتائی ہے ۔ اسحاق نے کہا کہ ” الان جست بہ ” اب تم نے صحیح بات بیان کی ہے۔ اس قسم کی گفتگو اس گھرانے کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ہے اور یہ کہہ کر اپنے سارے نوشتہ کو نذرآتش کر دیا۔ ( مناقب ابن شہر آشوب، بحارالانوار )
اس واقعہ سے اس حقیقت کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے بیانات کے واقعی اتحاد و اتفاق کا سمجھنا اس امر پر موقوف ہے کہ انسان واقعی مراد الہی سے باخبر ہو ورنہ اس کے بغیر تضاد و تناقض کا احساس بھی کوئی عجیب و غریب بات نہیں ہے اور اکثر مفسرین اسی مشکل میں گرفتار رہتے ہیں اور قرآن مجید کی آیتوں میں اتحاد و اتفاق ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان کا ادراک ظاہری معانی سے آگے نہیں ہوتا ہے اور ظاہری معانی کے اعتبار سے بعض اوقات تناقض اور تضاد کا احساس بہر حال ہونے لگتا ہے۔
رسول اکرم (ص) نے اتنی بڑی امت اسلامیہ اور اتنی کثیر صحابہ کرام (رضی) کی جماعت کے باوجود عترت و اہلبیت سے تمسک کا حکم اسی لیے دیا تھا کہ امت کے پاس تعلیم و تعلم کا علم ہے اور اس کا علم استاد اور مدرسہ کا مرہون منت ہے اور استاد و مدرسہ کا علم بہر حال ظاہری معانی تک ہی محدود رہتا ہے ۔اہلبیت طاہریں علیہ السلام وہ افراد ہیں جنھیں پروردگار عالم نے الہام والقاء کے ذریعہ حقائق و معارف سے آگاہ کیا ہے اور وہ مراد الہی سے باخبر ہیں لہذا ان کے بیان کردہ معانی میں تضاد اور اختلاف کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اسحاق کندی مر گیا لیکن اس کے بعد بھی ہر دور میں کندی پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے اور جب تک دنیا میں کندیوں کی پیداوار کا سلسلہ جاری رہے گا امت اسلامیہ اہلبیت طاہرین علیہ السلام کی تفسیر و تشریح سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ہے اور اہلبیت طاہرین علیہ السلام کی ضرورت کا احساس بہر حال باقی رہے گا ۔
اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے
حوالہ کتاب : چوده ستارے
-
Jaffari Package جعفریہ پیکجProduct on sale₨ 3,100
-
14 Sitaray | نقوش عصمت | چودہ ستارے₨ 1,100
اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں