You are currently viewing حضرت مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو I مقتل مقرم I Best Articles 2022

حضرت مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو I مقتل مقرم I Best Articles 2022

مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد

مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد حضرت مسلم ع کو گرفتار کرنے کے بعد انھیں ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا ۔ آپ نے دارالامارہ کے دروازے پر ٹھنڈے پانی کا ایک بڑا سا مٹکا دیکھا تو ان ( ظالموں ) سے کہا : “مجھے کچھ پانی پلائیں”

مسلم بن عمرو باہلی نے جواب دیا : اس پانی سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے مگر یہ کہ روز رخ میں جا کر پیو ۔

حضرت مسلم بن عقیل ع نے پوچھا : “تو کون ہے ؟

اس نے کہا : میں وہ ہوں جس نے حق کو پہچانا اور تم منکر ہو ۔ میں نے اپنے امام کی اطاعت کی اور تم نے اس سے خیانت کی ، میں مسلم بن عمرو باہلی ہوں ۔

حضرت مسلم بن عقیل ع نے اسے جواب میں فرمایا : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے ! تُو کس قدر شقی اور بے رحم انسان ہے ۔ اے ابن باہلی ! تم مجھ سے زیادہ دوزخ کے مستحق ہو ۔ اس کے بعد جناب مسلم دارالامارہ کی دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئے ۔ ( ارشاد شیخ مفید )

عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط نے قیس نامی شخص کو پانی پلانے کے لیے بھیجا ۔ حضرت مسلم بن عقیل ع نے پانی پینا چاہا تو پیالہ خون سے بھر گیا ۔ جب آپ نے تیسری مرتبہ پینا چاہا تو پھر پیالہ خون سے بھر گیا اور آپ کے دانت ٹوٹ کر پیالے میں گر گئے ۔ آپ نے پانی پینے سے صرفِ نظر کرتے ہوۓ فرمایا : اگر پانی میرے مقدر میں ہوتا تو یوں نہ ہوتا ۔

پھر ابن زیاد کا ایک ملازم آیا اور جناب مسلم بن عقیل ع کو اس کے پاس لے گیا ۔ آپ نے ابن زیاد کو سلام نہ کیا ۔ اس کے محافظوں نے کہا : تم نے امیر کو سلام کیوں نہیں کیا ؟

حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : “خاموش ہو جاؤ ! یہ میرا امیر نہیں ہے” ۔ ( لہوف : ص ۳۰ ۔ تاریخ طبری : ج ۷ ، طبع لیدن ( Ledan ) بعض نے لکھا ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل ع نے اسے سلام کہنے کے بجاۓ کہا : ” اس پر سلام ہو کہ جس نے راہ حق کا اتباع کیا ، اپنے بُرے عواقب سے ڈرے اور خدائے بزرگ کی اطاعت کی ” ۔

حضرت مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو I مقتل مقرم haadionlinestore

ابن زیاد نے جناب مسلم بن عقیل ع کا یہ رویہ دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہا : سلام کرو یا نہ کرو ہر حال میں مارے جاؤ گے ۔ ( منتخب طریحی : ص ۳۰۰ )

حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا

“اگر تُو مجھے قتل کرے گا تو کیا ہوا ) تجھ سے بدتر نے مجھ سے بہتر کو قتل کیا ہے” ۔

ابن زیاد نے کہا : “تم نے اپنے امام کے خلاف قیام کیا ، مسلمانوں کی طاقت کو ختم کیا اور فتنے کا بیج بویا ہے” ۔

حضرت مسلم ابن عقیل ع نے فرمایا : جو جھوٹ بول رہا ہے ۔ وہ معاویہ اور اس کا لڑکا تھا کہ جنھوں نے مسلمانوں کی طاقت ختم کی اور تمھارا باپ تھا کہ جس نے فتنہ و فساد کا بیج بویا ہے ۔ میری آخری آرزو یہ ہے کہ خداوند متعال مجھے اپنی بدترین مخلوق کے ہاتھوں شہادت نصیب فرمائے

اس کے بعد حضرت مسلم بن عقیل ع نے درخواست کی کہ وہ اپنی قوم کے کسی شخص کو وصیت کرنا چاہتے ہیں ؟ ابن زیاد نے موافقت کی ۔ جناب مسلم بن عقیل ع نے وہاں پر موجود افراد کو دیکھا اور عمرو بن سعد پر نگاہ ڈالتے ہوئے فرمایا : تیرے اور میرے درمیان تھوڑی بہت رشتہ داری ہے ۔ اب مجھے تمھاری ضرورت ہے ۔ تمھارے اوپر لازم ہے کہ میری اس مخفی حاجت کو پورا کرو ۔ عمر بن سعد نے انکار کیا اور تیار نہ ہوا کہ جناب مسلم بن عقیل ع کی بات سنے ۔

ابن زیاد نے کہا : کوئی بات نہیں ، جاؤ اور دیکھو کہ تمہارے چچازاد کی کیا حاجت ہے ؟ اس کے بعد عمر ابن سعد حضرت مسلم بن عقیل ع کے ہمراہ ایسی جگہ پر گیا جہاں ابن زیاد انھیں دیکھ سکے

حضرت مسلم بن عقیل ع نے اسے چند ایک وصیتیں کیں

جب سے کوفہ آیا ہوں ، میں نے چھے سو درہم قرض لیا ہے ، میری زرہ اور تلوار کر میرا قرض ادا کر دینا ۔

مجھے قتل کرنے کے بعد ابن زیاد سے میری میت لے کر اسے دفن کر دینا ۔

امام حسین ع کے نام ایک خط لکھنا اور انھیں میرے قتل ہونے کی اطلاع کر دینا تا کہ وہ کوفہ تشریف نہ لائیں ۔

عمر بن سعد حضرت مسلم بن عقیل ع کی وصیتیں سننے کے بعد وہاں سے اٹھا اور سیدھا ابن زیاد کے پاس آیا اور جو کچھ آپ نے بصیغہ راز اسے بتایا تھا ، اس نے وہ سب فاش کر دیا ۔ ابن زیاد نے کہا : امین ہرگز خیانت نہیں کرتا لیکن بعض اوقات خیانت کار کو امین سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ابن زیاد حضرت مسلم بن عقیل ع کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : خبردار ! اے ابن عقیل ” ! تم مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے آۓ ہو ؟ حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : نہیں ! میں اس کام کے لیے نہیں آیا ہوں ۔

اس شہر کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمھارے باپ نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور ان کا خون زمین پر بہایا اور قیصر و کسریٰ کے مانند حکومت کرتا رہا ۔ ہم تو عدالت کو رواج دینے اور لوگوں کو احکام قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دینے کے لیے آۓ ہیں ۔ ابن زیاد نے کہا : تمہیں کیا ، کیا ہم عدالت پر عمل نہیں کرتے کہ تم ہمیں عدالت سکھانے آۓ ہو ۔ تم کل تک مدینہ میں شراب نوشی کرتے تھے اور آج عدالت کا امر کرنے آئے ہو ؟

حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : خدا جانتا ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ، نہ جانتے ہوۓ زبان کھولتے ہو ( یعنی بکواس کرتے ہو ) اور خشم ، دشمنی اور بدگمانی کی وجہ سے قتل کا حکم دیتے ہو ۔ ابن زیاد نے جب حضرت مسلم بن عقیل ع کا جواب سنا تو بدگوئی کرنے لگا ۔ نیز انھیں ، حضرت علی ع ، حضرت عقیل ع اور امام حسین ع کو فحش گالیاں بکنے لگا ۔ جناب مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : تو اور تیرا باپ اس قسم کی گالیوں کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اے دشمنِ خدا ! تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر ۔ ( لہوف : ص ۳۱

ابن زیاد نے ایک شامی کو حکم دیا کہ جناب مسلم بن عقیل ع کو دارالامارہ کی چھت پر لے جاؤ اور ان کا سر تن سے جدا کر کے زمین پر پھینک دو ۔ ( مقتل خوارزمی : ج ۱ ص ۲۱۳ )

حضرت مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد کے درمیان گفتگو I مقتل مقرم haadionlinestore

جب وہ لوگ حضرت مسلم بن عقیل ع کو دارالامارہ کی چھت پر لے جارہے تھے تو ان کی مسلسل ذکر جاری تھا اور وہ کلمہ لا الہ الا اللہ اورسبحان اللہ کا ورد کر رہے تھے ۔ اسی طرح وہ فرشتوں اور پیغمبرانِ خدا پر درود بھیج رہے تھے اور کہہ رہے تھے :” اے اللہ ! تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان کہ جنھوں نے ہمیں دھوکا دیا ، ہمیں رسوا کیا اور ہمیں جھٹلایا ، فیصلہ کر ” ۔

جناب مسلم بن عقیل ع نے چھت کے اوپر سے مدینہ کی طرف نگاہ کرتے ہوۓ فرمایا : السلام عليك يا ابا عبداللہ ۔ ( اسرار الشہادۃ ، ص ۲۵۹ ) وہ شامی سپاہی حضرت مسلم بن عقیل ع کو دارالامارہ کی چھت کی اس طرف لے گیا جس طرف قصائیوں کا محل تھا ۔

اس نے جناب مسلم بن عقیل ع کی گردن کاٹی اور سر اور بدن کو زمین پر پھینک دیا ۔ ( مثیر الاحزان ، ص ۱۸ ) اور خود و حشت زدہ اور بے ہوشی کے عالم میں نیچے اترا ۔ ابن زیاد نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو اس سے کہا : “تمہیں کیا ہوا ہے ؟”

اس نے جواب دیا : جب ان کی گردن کاٹنا چاہتا تھا تو میں نے بدصورت اور سیاہ چہرے والا شخص دیکھا جو میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی انگلی منہ میں لیے کاٹ رہا تھا ۔ اسے دیکھنے سے میرے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا ۔ ابن زیاد نے کہا : شاید تمہیں وہم ہوا ہے ۔ ( مقتل خوارزمی : ج ۱ ص ۳۱۲ ، لہوف )

مکمل معلومات اور مزید واقعات کیلئے درج ذیل کتاب ملاحضہ فرمائیں شکریہ

حوالہ کتاب : مقتل مقرم صفہ نمبر 289 تا 295

اگر آپ اس کتاب کو مکمل پڑھنا چاہتے ہیں تو آج ہی اپنا آرڈر بک کرائیں اور گھر بیٹھے حاصل کریں

Click Here For All Articles