مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد
مسلم بن عقیل ع اور ابن زیاد حضرت مسلم ع کو گرفتار کرنے کے بعد انھیں ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا ۔ آپ نے دارالامارہ کے دروازے پر ٹھنڈے پانی کا ایک بڑا سا مٹکا دیکھا تو ان ( ظالموں ) سے کہا : “مجھے کچھ پانی پلائیں”
مسلم بن عمرو باہلی نے جواب دیا : اس پانی سے ایک قطرہ بھی نہیں پی سکو گے مگر یہ کہ روز رخ میں جا کر پیو ۔
حضرت مسلم بن عقیل ع نے پوچھا : “تو کون ہے ؟
اس نے کہا : میں وہ ہوں جس نے حق کو پہچانا اور تم منکر ہو ۔ میں نے اپنے امام کی اطاعت کی اور تم نے اس سے خیانت کی ، میں مسلم بن عمرو باہلی ہوں ۔
حضرت مسلم بن عقیل ع نے اسے جواب میں فرمایا : تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے ! تُو کس قدر شقی اور بے رحم انسان ہے ۔ اے ابن باہلی ! تم مجھ سے زیادہ دوزخ کے مستحق ہو ۔ اس کے بعد جناب مسلم دارالامارہ کی دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئے ۔ ( ارشاد شیخ مفید )
عمارہ بن عقبہ بن ابی معیط نے قیس نامی شخص کو پانی پلانے کے لیے بھیجا ۔ حضرت مسلم بن عقیل ع نے پانی پینا چاہا تو پیالہ خون سے بھر گیا ۔ جب آپ نے تیسری مرتبہ پینا چاہا تو پھر پیالہ خون سے بھر گیا اور آپ کے دانت ٹوٹ کر پیالے میں گر گئے ۔ آپ نے پانی پینے سے صرفِ نظر کرتے ہوۓ فرمایا : اگر پانی میرے مقدر میں ہوتا تو یوں نہ ہوتا ۔
پھر ابن زیاد کا ایک ملازم آیا اور جناب مسلم بن عقیل ع کو اس کے پاس لے گیا ۔ آپ نے ابن زیاد کو سلام نہ کیا ۔ اس کے محافظوں نے کہا : تم نے امیر کو سلام کیوں نہیں کیا ؟
حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : “خاموش ہو جاؤ ! یہ میرا امیر نہیں ہے” ۔ ( لہوف : ص ۳۰ ۔ تاریخ طبری : ج ۷ ، طبع لیدن ( Ledan ) بعض نے لکھا ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل ع نے اسے سلام کہنے کے بجاۓ کہا : ” اس پر سلام ہو کہ جس نے راہ حق کا اتباع کیا ، اپنے بُرے عواقب سے ڈرے اور خدائے بزرگ کی اطاعت کی ” ۔
ابن زیاد نے جناب مسلم بن عقیل ع کا یہ رویہ دیکھا تو مسکراتے ہوئے کہا : سلام کرو یا نہ کرو ہر حال میں مارے جاؤ گے ۔ ( منتخب طریحی : ص ۳۰۰ )
حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا
“اگر تُو مجھے قتل کرے گا تو کیا ہوا ) تجھ سے بدتر نے مجھ سے بہتر کو قتل کیا ہے” ۔
ابن زیاد نے کہا : “تم نے اپنے امام کے خلاف قیام کیا ، مسلمانوں کی طاقت کو ختم کیا اور فتنے کا بیج بویا ہے” ۔
حضرت مسلم ابن عقیل ع نے فرمایا : جو جھوٹ بول رہا ہے ۔ وہ معاویہ اور اس کا لڑکا تھا کہ جنھوں نے مسلمانوں کی طاقت ختم کی اور تمھارا باپ تھا کہ جس نے فتنہ و فساد کا بیج بویا ہے ۔ میری آخری آرزو یہ ہے کہ خداوند متعال مجھے اپنی بدترین مخلوق کے ہاتھوں شہادت نصیب فرمائے
اس کے بعد حضرت مسلم بن عقیل ع نے درخواست کی کہ وہ اپنی قوم کے کسی شخص کو وصیت کرنا چاہتے ہیں ؟ ابن زیاد نے موافقت کی ۔ جناب مسلم بن عقیل ع نے وہاں پر موجود افراد کو دیکھا اور عمرو بن سعد پر نگاہ ڈالتے ہوئے فرمایا : تیرے اور میرے درمیان تھوڑی بہت رشتہ داری ہے ۔ اب مجھے تمھاری ضرورت ہے ۔ تمھارے اوپر لازم ہے کہ میری اس مخفی حاجت کو پورا کرو ۔ عمر بن سعد نے انکار کیا اور تیار نہ ہوا کہ جناب مسلم بن عقیل ع کی بات سنے ۔
ابن زیاد نے کہا : کوئی بات نہیں ، جاؤ اور دیکھو کہ تمہارے چچازاد کی کیا حاجت ہے ؟ اس کے بعد عمر ابن سعد حضرت مسلم بن عقیل ع کے ہمراہ ایسی جگہ پر گیا جہاں ابن زیاد انھیں دیکھ سکے
حضرت مسلم بن عقیل ع نے اسے چند ایک وصیتیں کیں
جب سے کوفہ آیا ہوں ، میں نے چھے سو درہم قرض لیا ہے ، میری زرہ اور تلوار کر میرا قرض ادا کر دینا ۔
مجھے قتل کرنے کے بعد ابن زیاد سے میری میت لے کر اسے دفن کر دینا ۔
امام حسین ع کے نام ایک خط لکھنا اور انھیں میرے قتل ہونے کی اطلاع کر دینا تا کہ وہ کوفہ تشریف نہ لائیں ۔
عمر بن سعد حضرت مسلم بن عقیل ع کی وصیتیں سننے کے بعد وہاں سے اٹھا اور سیدھا ابن زیاد کے پاس آیا اور جو کچھ آپ نے بصیغہ راز اسے بتایا تھا ، اس نے وہ سب فاش کر دیا ۔ ابن زیاد نے کہا : امین ہرگز خیانت نہیں کرتا لیکن بعض اوقات خیانت کار کو امین سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ابن زیاد حضرت مسلم بن عقیل ع کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : خبردار ! اے ابن عقیل ” ! تم مسلمانوں کی وحدت کو ختم کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لیے آۓ ہو ؟ حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : نہیں ! میں اس کام کے لیے نہیں آیا ہوں ۔
اس شہر کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تمھارے باپ نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور ان کا خون زمین پر بہایا اور قیصر و کسریٰ کے مانند حکومت کرتا رہا ۔ ہم تو عدالت کو رواج دینے اور لوگوں کو احکام قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دینے کے لیے آۓ ہیں ۔ ابن زیاد نے کہا : تمہیں کیا ، کیا ہم عدالت پر عمل نہیں کرتے کہ تم ہمیں عدالت سکھانے آۓ ہو ۔ تم کل تک مدینہ میں شراب نوشی کرتے تھے اور آج عدالت کا امر کرنے آئے ہو ؟
حضرت مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : خدا جانتا ہے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو ، نہ جانتے ہوۓ زبان کھولتے ہو ( یعنی بکواس کرتے ہو ) اور خشم ، دشمنی اور بدگمانی کی وجہ سے قتل کا حکم دیتے ہو ۔ ابن زیاد نے جب حضرت مسلم بن عقیل ع کا جواب سنا تو بدگوئی کرنے لگا ۔ نیز انھیں ، حضرت علی ع ، حضرت عقیل ع اور امام حسین ع کو فحش گالیاں بکنے لگا ۔ جناب مسلم بن عقیل ع نے فرمایا : تو اور تیرا باپ اس قسم کی گالیوں کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اے دشمنِ خدا ! تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر ۔ ( لہوف : ص ۳۱
ابن زیاد نے ایک شامی کو حکم دیا کہ جناب مسلم بن عقیل ع کو دارالامارہ کی چھت پر لے جاؤ اور ان کا سر تن سے جدا کر کے زمین پر پھینک دو ۔ ( مقتل خوارزمی : ج ۱ ص ۲۱۳ )
جب وہ لوگ حضرت مسلم بن عقیل ع کو دارالامارہ کی چھت پر لے جارہے تھے تو ان کی مسلسل ذکر جاری تھا اور وہ کلمہ لا الہ الا اللہ اورسبحان اللہ کا ورد کر رہے تھے ۔ اسی طرح وہ فرشتوں اور پیغمبرانِ خدا پر درود بھیج رہے تھے اور کہہ رہے تھے :” اے اللہ ! تو ہمارے اور اس قوم کے درمیان کہ جنھوں نے ہمیں دھوکا دیا ، ہمیں رسوا کیا اور ہمیں جھٹلایا ، فیصلہ کر ” ۔
جناب مسلم بن عقیل ع نے چھت کے اوپر سے مدینہ کی طرف نگاہ کرتے ہوۓ فرمایا : السلام عليك يا ابا عبداللہ ۔ ( اسرار الشہادۃ ، ص ۲۵۹ ) وہ شامی سپاہی حضرت مسلم بن عقیل ع کو دارالامارہ کی چھت کی اس طرف لے گیا جس طرف قصائیوں کا محل تھا ۔
اس نے جناب مسلم بن عقیل ع کی گردن کاٹی اور سر اور بدن کو زمین پر پھینک دیا ۔ ( مثیر الاحزان ، ص ۱۸ ) اور خود و حشت زدہ اور بے ہوشی کے عالم میں نیچے اترا ۔ ابن زیاد نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو اس سے کہا : “تمہیں کیا ہوا ہے ؟”
اس نے جواب دیا : جب ان کی گردن کاٹنا چاہتا تھا تو میں نے بدصورت اور سیاہ چہرے والا شخص دیکھا جو میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی انگلی منہ میں لیے کاٹ رہا تھا ۔ اسے دیکھنے سے میرے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا ۔ ابن زیاد نے کہا : شاید تمہیں وہم ہوا ہے ۔ ( مقتل خوارزمی : ج ۱ ص ۳۱۲ ، لہوف )
مکمل معلومات اور مزید واقعات کیلئے درج ذیل کتاب ملاحضہ فرمائیں شکریہ
حوالہ کتاب : مقتل مقرم صفہ نمبر 289 تا 295
-
Maqtal e Muqarram | مقتل مقرم₨ 1,200
اگر آپ اس کتاب کو مکمل پڑھنا چاہتے ہیں تو آج ہی اپنا آرڈر بک کرائیں اور گھر بیٹھے حاصل کریں