You are currently viewing ابن زیاد کا سر حضرت امام سجاد ع کے حضور | ثورة المختار | مکمل ضرور پڑھیں
ابن زیاد

ابن زیاد کا سر حضرت امام سجاد ع کے حضور | ثورة المختار | مکمل ضرور پڑھیں

ابن زیاد کا سر حضرت امام سجاد ع کے حضور

ابن-زیاد-کا-سر-حضرت-امام-سجاد-ع-کے-حضور-ثورة-المختار-imam-Sajjad
ابن زیاد

حضرت محمد بن حنفیہ نے ابن زیاد کا سر حضرت امام سجاد علیہ السلام کے حضور بھیجا۔ جب آپ کی بارگاہ میں اسے پیش کیا گیا تو اس وقت آپ ناشتہ تناول فرما رہے تھے۔ آپ نے سجدۂ شکر ادا کیا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: ”اے اللہ! تو حمد وثناء کے لائق ہے کہ تو نے ہمارے دشمنوں سے ہمارا انتقام – لیا ہے۔ تو مختار کو جزائے خیر عطا کر۔ پھر آپ نے فرمایا: جب مجھے ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا تھا تو اس وقت وہ ناشتہ کر رہا تھا اور میرے والد کا سر اس کے سامنے تھا اور میں نے اس وقت دعا مانگی تھی: “خدایا! اس وقت تک مجھے موت نہ دینا جب تک ابن زیاد کے سر کو مقطوع صورت میں نہ دیکھوں۔” ( امالی طوسی , مدینتہ المعاجز )

اہل بیت علیہ السلام کے گھر میں خوشی

حضرت مختار کا کارنامہ اتنا پر عزت و عظمت ہے کہ جسے آئمہ اطہار علیہ السلام اور اہل بیت نبی نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی اس عظیم القدر خدمت کو وہ کبھی نہیں بھولے اور اسے ہمیشہ یاد رکھا، بالخصوص ابن زیاد اور عمر بن سعد کے معاملے میں بہت زیادہ خوش ہوۓ ۔ جب ابن زیاد کا سر مکہ اور مدینہ لایا گیا تھا تو اہل بیت رسول کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا بلکہ یہ دن اُن کے لیے پر مسرت دن تھا۔ المرزبانی نے اپنی اسناد سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ” سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی ہاشمیہ نے پانچ سال تک آنکھوں میں سرمہ نہ لگایا اور نہ مہندی لگائی اور نہ ہی ان کے گھروں سے کسی نے دھواں اٹھتا ہوا دیکھا حتیٰ کہ جب ابن زیاد ( بحارالانوار ) قتل ہوا تو ان کا غم وحزن ختم ہوا اور انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ( ذوب النضاد )

یحیی بن راشد سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت علی نے فرمایا: ہماری عورتوں میں سے کسی عورت نے نہ مہندی لگائی اور نہ آنکھوں میں سرمہ لگایا اور نہ بالوں میں کنگھی کی ۔ ہاں! جب مختار نے عبیداللہ بن زیاد کا سر بھیجا تو انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ ( ذوب النضاد )

جناب مختار کے ہدیہ جات

جناب مختار اکثر اہل بیت رسول کی طرف تحفہ جات اور مال اموال بھیجتے رہتے تھے اور حضرت محمد بن حنفیہ کو اپنے حالات سے مطلع کرتے رہتے تھے جبکہ اس انقلاب کے حقیقی قائد حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے بھی خفیہ صورت میں مربوط رہتے تھے۔ جب کبھی حضرت مختار کے پاس وافر اور قیمتی مال آتا تو فوراً امام اور ان کے اہل بیت علیہ السلام کی طرف بھیج دیتے تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف معزز و محترم خاندان کی ایک کنیز بھیجی تھی جس کے بطن مبارک سے آپ کے ہاں جناب زید کی ولادت ہوئی تھی۔ حضرت زید اہل بیت علیہ السلام کے ایک بہادر اور شجاع مرد تھے جنھیں شہید کر دیا گیا تھا۔

جناب مختار کے ہدایا اور تحائف آل محمد کی خوشی و مسرت کا سبب بنتے تھے۔ ابن ثقفی نے آل محمد کے ماننے والوں کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد اموی حکمرانوں نے اہل بیت علیہ السلام کے گھروں کو گرا دیا تھا اور جناب مختار نے انھیں دوبارہ بنوایا تھا اور ابن ثقفی نے ہر طرح سے ان کی مدد کی تھی۔ بعض مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ جناب مختار حجاز کی اہم شخصیات کی محبت کے حصول کے لیے ان کو تحائف بھیجتے رہتے تھے۔

جبکہ ابن عباس پر وہ بہت زیادہ سخاوت کرتے تھے کیونکہ وہ اہل بیت رسول کی وہ بارزہ شخصیت تھی ۔ آپ عبداللہ بن عمر جو آپ کے بہنوئی تھے ان کی خدمت بھی کرتے تھے اور یہ تمام شخصیات کھلے دل کے ساتھ ان کے ہدایا کو قبول کرتے تھے۔ ( اعلام الزرکل ) مگر بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ بن عمر جناب مختار کے تحائف قبول نہیں کرتے تھے۔ ( انساب الاشراف )

اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے

حوالہ کتاب: ثورة المختار

اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں