You are currently viewing حضرت علی ع کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی | فروغ ولایت

حضرت علی ع کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی | فروغ ولایت

حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی

تاریخ انسانیت میں بہت ہی کم شخصیتیں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام جیسی ہوں گی جن کے دوست اور دشمن دونوں نے مل کر ان کے فضائل و کمالات کو چھپائے ہوں گے اس کے باوجود ان کے فضائل و کمالات سے عالم پُر ہے۔ دشمن نے ان سے عداوت و دشمنی کو اپنے دل میں بٹھا رکھا ، اور حسد و کینہ کی وجہ سے ان کے بلند و با فضیلت مقامات اور کمالات کو لوگوں سے چھپایا ، اور دوست نے جو انہیں دل و جان سے چاہتا اور محبت کرتا ہے وہ دشمنوں کے شکنجے اور جان کے خوف کی وجہ سے ان کے فضائل و کمالات کو چھپایا ، ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ اپنے لبوں کو جنبش نہ دیں اور ان سے محبت و الفت کا اظہار نہ کریں اور ان کے متعلق اصلاً گفتگو نہ کریں۔

خاندان بنی امیہ کے افراد ہمیشہ اس بات پر کوشاں رہتے تھے کہ جس طرح سے بھی ممکن ہو علی اور ان کے خاندان کے فضائل کو مٹا دیا جائے ۔ بس اتنا کہنا ہی کافی تھا کہ علی کا چاہنے والا ہے بنی امیہ کے حکومتی سپاہیوں میں سے دو آدمی گواہی دیتے تھے کہ میں علی کا چاہنے والا ہے اور فوراً ہی اس کا نام حکومت میں کام کرنے والوں کی فہرست سے حذف کر دیا جاتا تھا ، اور بیت المال سے اس کا وظیفہ بند کر دیا جاتا تھا ، معاویہ اپنے گورنروں اور حاکموں کو خطاب کرتے ہوۓ کہتا ہے : اگر کسی شخص کے لئے معلوم ہو جائے کہ وہ علی اور ان کے خاندان سے محبت رکھنے والا ہے تو اس کا نام کام کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دو، اور اس کا وظیفہ ختم کر دو اور اسے تمام سہولتوں سے محروم کر دو ۔

حضرت علی ع کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی | فروغ ولایت

پھر معاویہ اپنے دوسرے حکم نامہ میں سختی اور تاکید سے حکم دیتا ہے کہ : جو بھی حضرت علی اور ان کے خاندان سے دوستی کا دم بھرتا ہے اس کے ناک اور کان کو کاٹ ڈالو اور ان کے گھر کو ویران کر دو۔ اس فرمان کے نتیجے میں عراق کی عوام خصوصاً اہل کوفہ اس قدر ڈرے اور سہمے کہ شیعوں میں سے کوئی بھی ایک شخص معاویہ کے جاسوسوں کی وجہ سے اپنے راز کو اپنے دوستوں تک سے بیان نہیں کر سکتا تھا مگر یہ کہ پہلے قسم لے لیتا تھا کہ اس کے راز کو فاش نہ کرنا۔

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 11 ، ص 30 – 33

اسکافی اپنی کتاب نقض عثانیہ میں لکھتے ہیں: بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومت ، مولائے کائنات کے فضل و کمالات کے متعلق بہت زیادہ حساس تھی اور ان کے فضائل کو روکنے اور مشہور نہ ہونے کے لئے اس نے اپنے فقہاء و محدثین اور قاضیوں کو اپنے پاس بلایا اور بہت سختی سے منع کیا کہ اپنی اپنی کتابوں میں علی کے فضائل و کمالات کو نقل نہ کریں۔

اس وجہ سے بہت سے محدثین مجبور تھے کہ حضرت علی کے فضائل و کمالات کو اشارے اور کنایہ کے طور پر نقل کریں اور یہ کہیں کہ قریش کے فلاں آدمی نے ایسا کیا ہے۔ معاویہ نے تیسری مرتبہ سرزمین اسلامی پر پھیلے ہوئے اپنے سیاسی نمائندوں کو خط لکھا کہ علی کے شیعوں کی گواہی کسی بھی مسئلے میں قبول نہ کریں۔ لیکن اس کا یہ حکم بہت زیادہ مفید ثابت نہ ہوا جو حضرت علی و خاندان کے فضائل کو منتشر ہونے سے روک پاتا، اس وجہ سے معاویہ نے چوتھی مرتبہ اپنے گورنر کو لکھا کہ جو لوگ عثمان کے فضائل و مناقب کو نقل کریں ان کا احترام کرو اور ان کا نام اور پتے میرے پاس روانہ کرو تا کہ ان کی عظیم خدمات کا صلہ انہیں دیا جا سکے۔

یہ ایک ایسی خوشخبری تھی جو اس بات کا سبب بنی کہ تمام شہروں میں عثمان کے جعلی فضائل و مناقب گڑھے جانے لگے اور یہ فضائل نقل کرنے والے عثمان کے فضائل کے متعلق حدیثیں لکھ لکھ کر مالدار بننے لگے، اور یہ سلسلہ بڑی تیزی سے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ خود معاویہ اس بے اساس اور جھوٹے فضائل کے مشہور ہونے کی وجہ سے بہت ناراض ہوا اور اس مرتبہ حکم دیا کہ عثمان کے فضائل بیان نہ کیئے جائیں۔ اور خلیفہ اول اور دوم اور دوسرے صحابہ کے فضائل بیان کئے جائیں اور اگر کوئی محدث ابوتراب کی فضیلت میں کوئی حدیث نقل کرے تو فوراً اسی سے مشابہ ایک فضیلت پیغمبر کے دوسرے صحابیوں کے بارے میں گڑھ دیا جائے اور اسے لوگوں کے درمیان بیان کیا جائے کیونکہ یہ کام شیعوں کی دلیلوں کو بے اثر کرنے کیلئے بہت مؤثر ہے ؟

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 3 ، ص 10

مروان بن حکم ان لوگوں میں سے تھا جس کا یہ کہنا تھا کہ حضرت علی نے عثمان کا جو دفاع کیا تھا ایسا دفاع کسی نے نہیں کیا۔ اس کے باوجود ہمیشہ امام پر لعنت و ملامت کرتا تھا۔ جب اس پر اعتراض کیا گیا کہ تم حضرت علی کے بارے میں جب ایسا عقیدہ رکھتے ہو تو پھر کیوں انہیں برا بھلا کہتے ہو تو اس نے جواب دیا : میری حکومت صرف علی کو برا بھلا کہنے اور ان پر لعنت کرنے کی وجہ سے ہی محکم اور مستحکم ہوگی ،اور ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو حضرت علی علیہ السلام کی پاکیزگی اور طہارت اور عظمت و جلالت کے قائل تھے لیکن اپنے مقام و منصب کی بقا کے لئے حضرت علی علیہ السلام اور ان کے بچوں کو برا بھلا کہتے تھے۔

عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں: میرے باپ مدینہ کے حاکم اور مشہور خطیب اور بہت بہادر تھے، اور نماز جمعہ کا خطبہ بہت ہی فصیح و بلیغ انداز سے دیتے تھے لیکن حکومت معاویہ کے فرمان کی وجہ سے مجبور تھے کہ خطبہ جمعہ کے درمیان علی اور ان کے خاندان پر لعنت کریں ، لیکن جب گفتگو اس مرحلے تک پہنچی تو اچانک ان کی زبان لکنت کرنے لگتی اور ان کے چہرہ کا رنگ تبدیل ہونے لگتا اور خطبہ سے فصاحت و بلاغت ختم ہو جاتی تھی۔ میں نے اپنے باپ سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا جو کچھ میں حضرت علی کے بارے میں جانتا ہوں اگر دوسرے بھی وہی جانتے تو کوئی بھی میری پیروی نہیں کرتا اور میں حضرت علی کے تمام فضائل و کمالات اور معرفت کے بعد بھی انہیں برا بھلا کہتا ہوں ، کیونکہ آل مروان کی حکومت کو بچانے کیلئے میں مجبور ہوں کہ ایسا کروں

( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 13 ، ص 221 )

بنی امیہ کی اولاد کا دل علی کی دشمنی سے لبریز تھا ، جب کچھ حقیقت پسند افراد نے معاویہ کو نصیحت کی کہ اس کام سے باز آ جاۓ تو معاویہ نے کہا کہ میں اس مشن کو اس حد تک جاری رکھوں گا کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے یہ فکر لئے ہوئے بڑے ہو جائیں اور ہمارے بزرگ اسی حالت میں بوڑھے ہو جائیں ۔ حضرت علی علیہ السلام کو ساٹھ سال تک منبروں ، نشستوں میں وعظ و نصیحت اور خطباء کے ذریعے، اور درس و تدریس کے ذریعے ، خطباء اور محدثین کے درمیان معاویہ کے حکم سے برا بھلا کہا جاتا رہا اور یہ سلسلہ اس قدر مفید و مؤثر ہوا کہ کہتے ہیں کہ ایک دن حجاج نے کسی مرد سے غصہ میں بات کی اور وہ شخص قبیلہ بنی ازد کا رہنے والا تھا، اس نے حجاج کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا: اے امیر! مجھ سے اس انداز سے بات نہ کرو، ہم بافضیلت لوگوں میں سے ہیں ۔

حجاج نے اس کے فضائل کے متعلق سوال کیا اس نے جواب دیا کہ ہمارے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ہم سے تعلقات بڑھاۓ تو سب سے پہلے ہم اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا وہ ابوتراب کو دوست رکھتا ہے یا نہیں؟! اگر وہ تھوڑا بہت بھی ان کا چاہنے والا ہوتا ہے تو ہرگز ہم اس سے تعلقات و رابطہ برقرار نہیں کرتے ۔ علی اور ان کے خاندان سے ہماری دشمنی اس حد تک ہے کہ ہمارے قبیلے میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملے گا کہ جس کا نام حسن یا حسین ہو اور کوئی بھی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جس کا نام فاطمہ ہو۔

اگر ہمارے قبیلے کے کسی بھی شخص سے یہ کہا جاۓ کہ علی سے کنارہ کشی اختیار کرو تو فوراً اس کے بچوں سے بھی دوری اختیار کر لیتا ہے۔ خاندان بنی امیہ کے لوگوں نے مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو پوشیدہ رکھا اور ان کے مناقب سے انکار کیا اور اتنا برا بھلا کہا کہ بزرگوں اور جوانوں کے دلوں میں رسوخ کر گیا اور لوگ حضرت علی علیہ السلام کو برا کہنا ایک مستحب عمل سمجھنے لگے ۔اور بعض لوگوں نے اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھا ۔

حضرت علی ع کے فضائل و کمالات بیان کرنے پر پابندی | فروغ ولایت

جب عمر بن عبدالعزیز نے چاہا کہا کہ اسلامی معاشرے کے دامن پر لگے اس بد نما داغ کو پاک کرے ، تو بنی امیہ کی روٹیوں پر پلنے والے کچھ لوگوں نے نالہ و فریاد بلند کرنا شروع کر دیا کہ خلیفہ، اسلامی سنت کوختم کرنا چاہتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود اسلامی تاریخ کے اوراق آج بھی گواہی دے رہے ہیں کہ بنی امیہ کے بد خصالوں نے جو نقشہ کھینچا تھا ان کی آروزئیں خاک میں مل گئیں اور ان کی مسلسل کوششوں نے توقع کے خلاف نتیجہ دیا اور فضائل و مناقب حضرت علی علیہ السلام خطیبوں کے چھپانے کے باوجود سورج کی طرح چمکا ، اور اس نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو بیدار کیا بلکہ یہ سبب بنا کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کریں اور امام کی شخصیت پر سیاست کی عینک اتار کر قضاوت کریں ، یہاں تک کہ عبداللہ بن زبیر کا پوتا عامر جو خاندان علی کا دشمن تھا

اپنے بیٹے کو وصیت کرتا ہے کہ علی کو برا کہنے سے باز آ جاۓ کیونکہ بنی امیہ نے ساٹھ سال تک منبروں سے علی پر سب و شتم کیا لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا بلکہ حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت اور بھی اجاگر ہوتی گئی اور لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور بھی بڑھتی گئی ۔

( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 13 ، ص 221 )

اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے

حوالہ کتاب : فروغ ولایت

اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں