You are currently viewing امام مہدی کی طولانی غیبت کی وجہ کیا ہے ؟

امام مہدی کی طولانی غیبت کی وجہ کیا ہے ؟

امام مہدی کی طولانی غیبت کی وجہ کیا ہے ؟ سنی شیعہ بھی مسلمان امام مہدی علیہ السلام کی آمد ظلم و جور کے خاتمہ اور عدل و انصاف کی بالادستی پر ایمان رکھتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ سنی حضرات کے مطابق امام مہدی علیہ السلام خاندان رسالت میں پیدا ہوں گے جبکہ شیعہ صاحبان کے مطابق آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر میں پیدا ہو چکے ہیں اور امر خداوندی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح پرده غیبت میں ہیں۔ غیبت صغریٰ کے بعد غیبت کبریٰ کا زمانہ جاری ہے۔ جب خداۓ متعال کا حکم ہوگا تو آپ ظہور فرمائیں گے اور کائنات عالم میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لائیں گے ۔

حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں شیعہ عقیدہ پر آپ کی طولانی غیبت کے بارے میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ دنیا میں کافی حد تک ظلم وستم اور فساد موجود ہونے کے باوجود امام مہدی ع ظہور کیوں نہیں کرتے ؟ اپنے انقلاب کے ذریعے دنیا کو عدل و انصاف کے راستہ پر کیوں نہیں لگاتے ؟ آخر ہم کب تک بیٹھے ہوئے خون ریز جنگوں اور خدا سے غافل مٹھی بر ظالموں اور سیاہ کاروں کے ظلم و ستم کا نظارہ کرتے رہیں ؟ آپ کی غیبت اس قدر طولانی کیوں ہوگئی ہے ؟ اب آپ کو کس چیز کا انتظار ہے ؟ اور آخر اس طولانی غیبت کا راز کیا ہے؟ اگر چہ معمولاً غیبت کے مسئلہ میں یہ سوال شیعوں سے کیا جاتا ہے ۔لیکن ذرا سا غور و فکر کرنے کے بعد یہ حقیقت اچھی طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ اس مسئلہ میں دوسرے لوگ بھی برابر کے شریک ہیں ۔ یعنی وہ تمام حضرات جو ایک عظیم عالمی مصلح کے ظہور کے سلسلہ میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ایک دن وہ انقلاب برپا کر کے پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ یہی سوال ایک دوسری شکل میں ان سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

جو شیعوں کے عقائد کو سرے سے نہ جانتے ہوں ۔ان سے یہ سوال یوں کیا جاسکتا ہے کہ اس عظیم مصلح کی ولادت ابھی تک کیوں نہیں ہوئی ہے؟ اور اگر پیدائش ہو چکی ہے تو پھر انقلاب کیوں نہیں آ جاتا اور آپ اس پیاسی دنیا کو اپنے عدل و انصاف کے جام سے سیراب کیوں نہیں کرتے ؟ لہذا اگر اس کا رخ فقط شیعوں کی جانب رکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ دوسرے لفظوں میں شک نہیں ہے کہ طول عمر کا مسئلہ (گزشتہ بحث) اور زمانہ و غیبت میں امام کے وجود کے فلسفہ (آئندہ بحث ) کے بارے میں صرف شیعوں ہی سے سوال کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن آپ کے ظہور میں تاخیر کا فلسفہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ان تمام لوگوں کوغور و فکر کرنا چاہیے جو اس عالمی مصلح کے ظہور پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس انقلاب کے لئے دنیا کی مکمل آبادی کے باوجود آپ کا ظہور کیوں نہیں ہورہا ۔

بہر حال اس سوال کا ایک جواب مختصر ہے اور ایک مفصل ۔ مختصر جواب یہ ہے کہ ہمہ گیرا ور عالمگیر انقلاب کے لئے صرف ایک لائق اور شائستہ رہبر کا وجود ہی کافی نہیں ہے ، بلکہ ضروری ہے کہ عوام بھی آمادہ نظر آتی ہو۔دنیا میں آمادگی پیدا ہوتے ہی آپ کا ظہور اور قیام یقینی ہے۔اور جہاں تک مفصل جواب کا تعلق ہے تو : اولاً ۔ جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے ،اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ امام مہدی علیہ السلام کے قیام کے منصوبہ پر تمام پیغمبروں کے قیام کے منصوبہ کی طرح صرف طبعی اور عام اسباب و ذرائع کو کام میں لاتے ہوۓ ، کسی صورت میں بھی یہ کام معجزے کے ذریعے انجام نہیں پاۓ گا۔ معجزہ استثنائی چیز ہوتا ہے اور چند استثنائی مقامات کے سوا آسانی پیشواؤں کے اصلاحی منصوبوں میں اس کا عمل دخل نظر نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر رہنما نے اپنے مقاصد کو ترقی دینے کے لیے ہمیشہ اپنے زمانے کے لائق افراد کی تربیت اسلحہ ضروری مشاورت ،مؤثر جنگ کی صحیح حکمت عملی اور تدبیروں مختصراً ہر طرح کے مادی اور مصنوعی ذرائع سے کام لیا ہے۔

وہ اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہے کہ ہر روز ایک نیا معجزہ رونما ہو اور دشمن چند قدم پسپا ہو جائے یا یہ کہ مومنین ہر روز معجزے کے سہارے ترقی کے میدان میں آگے بڑھیں ۔ لہذا عالمی سطح پر حق و انصاف کی حکومت کے منصوبہ پر عمل کرنے کے لئے کچھ استثنائی مقامات کے علاوہ مادی اور معنوی وسائل و ذرائع سے بھی کام لیا جاۓ گا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ امام مہدی ع اپنے ساتھ کوئی نیا دین نہیں لائیں گے بلکہ خداوند عالم کے انہی انقلابی منصوبوں پر عمل کریں گے ،جن پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے ۔

آپ کی ذمہ داری صرف تعلیم و تربیت نصیحت و سفارش ، لوگوں کو ڈرانا اور پیغام پہنچا دینا ہی نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ بھی فریضہ ہے کہ ان تمام اصولوں اور قوانین کو نافذ کرائیں جو علم و ایمان کی حکومت کے سایہ میں ہر طرح کے ظلم و ستم اور ناحق امتیازات کا خاتمہ کر دیں گے اور یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ ایسے منصوبہ کا انعقاد اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ سماج اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ تانیاً۔ مذکورہ بالا بنیادی اصول کی روشنی میں ہمارے اس قول کی وضاحت ہو جاتی ہے جس میں ہم ظہور کی تاخیر کا سبب انسانی معاشرہ کی عدم آمادگی کو قرار دے دیتے ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے ظہور اور انقلاب کے لئے کم از کم حسب ذیل آمادگیوں کی ضروت ہے۔

نفسیاتی آمادگی (سچائی تسلیم کرنے کی آمادگی )

ضروری ہے کہ لوگ اس دنیا کی بے سروسامانی کا احساس کر لیں اور ظلم و ستم کا مزا خوب اچھی طرح چکھ لیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لے کہ انسانی ذہن کے بنائے ہوئے قانون دنیا میں عدل و انصاف برقرار رکھنے کی توانائی اور صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ ضروری ہے کہ پوری دنیا یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لے کہ مادی اصولوں ، قوانین موجودہ قوت نافذہ ، اور انسانوں کے خود ساختہ ضوابط کے زیر سایہ، دنیا کی مشکلیں حل نہیں ہو سکیں گی ۔ بلکہ دن بہ دن یہ مشکلیں بڑھتی جائیں گی نیز ان کی گتھیاں سلجھنے کے بجائے اور الجھتی جائیں گی ضروری ہے کہ پوری بشریت کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس دور کی مشکلیں اور بحران ، موجودہ نظاموں کی پیداوار ہیں اور آخرکار یہ نظام ان مشکلوں کو حل کرنے سے عاجز ہو جائیں گے۔

نفسیاتی آمادگی سچائی تسلیم کرنے کی آمادگی , فلسفہ غیبت مہدی

ضروری ہے کہ دنیائے انسانیت یہ سمجھ لے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کچھ ایسے نئے اصولوں اور نظام کی ضرورت ہے جو انسانی اقدار ، ایمان بشری عطوفت اور اخلاق کی بنیاد پر قائم ہو کیونکہ بے جان ، ناقص ، خشک اور مادی اصولوں سے کام نہیں چل سکا۔ ضروری ہے کہ پوری دنیا میں عوام کا سماجی شعور اس حد تک بیدار ہو جائے کہ وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حتماً بشریت کو بھی ارتقاء حاصل ہو جائے گی اور انسانوں کو خوشحالی اور سعادت نصیب ہو جاۓ گی بلکہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجی صرف اس وقت خوشحالی کی ضمانت بن سکتی ہے جب کہ یہ ٹیکنالوجی انسان اور معنوی اصول و ضوابط کے زیر سایہ ہو ورنہ یہی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی انسانیت کی تباہی اور بربادی کا سبب بن جائے گی اور ہم اپنی زندگی میں کئی بار اس بات کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔

ضروری ہے کہ ساری دنیا کے عوام یہ سمجھ لیں کہ اگر یہ ضرورتیں بت کی شکل اختیار کرلیں تو موجودہ مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیں گی جنگوں میں تباہی اور بربادی کے دائرہ کو اور بھی زیادہ وسیع کردیں گی ، بلکہ ان صنعتوں کو اوزار کے طور پر لائق انسانوں کے اختیار اور کنٹرول میں ہونا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بشریت پیاسی ہو، اور جب تک اس کو پیاس نہیں لگے گی یہ پانی کے چشموں کی تلاش میں نہیں نکلے گی ۔ دوسرے الفاظ میں جب تک لوگوں میں مانگ نہ ہو کسی قسم کے اصلاحی منصوبے کو پیش کرنا مفید نہ ہوگا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشی مسائل سے زیادہ سماجی مسائل میں رسد اور طلب کے اصول پر توجہ دی جائے ۔

لیکن یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اس پیاس اور طلب کو کیونکر ایجاد کیا سکتا ہے۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ تو وقت اس کو ایجاد کر دے گا کیونکہ اس کے لئے وقت اور زمانہ بہت ضروری ہے لیکن اس سلسلہ کی کچھ چیزیں تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہیں ، معاشرہ کے ذمہ دار مومن اور باخبر دانشمندوں کی طرف سے جو فکری احیا شروع ہوتا ہے ۔ یہ عمل اس کے ساتھ انجام پانا چاہیے ۔ ان دانشمندوں کا وظیفہ ہے کہ اپنے انسان ساز منصوبوں کے ذریعہ کم از کم دنیا کے عوام کو ہر بات سمجھائیں کہ ان کی اصل مشکلیں موجودہ اصول و قوانین اور اسلوب کے ذریعے حل نہیں ہوسکیں گے اور بہر حال اس وظیفہ کو انجام دینے کے لئے بھی وقت درکار ہے۔

ثقافتی اور صنعتی ارتقاء

پوری دنیا کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کرنے ، ہر جگہ پر طاقت کے نشہ میں چور ظالموں اور ستمگروں کے زور کو ختم کرنے ، نیز ہر معاشرہ میں اعلیٰ پیمانے پر تعلیم و تربیت کو رائج کرنے کے لئے اور اس مسئلہ کو اچھی طرح سے سمجھانے کے لئے کہ نسل ، زبان اور جغرافیائی حدود کا فرق اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ پوری دنیا کے عوام آپس میں مل جل کر بھائی بھائی کی طرح صلح و صفائی ، عدل و انصاف ، اخوت و برابری کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتے ۔ اس کے علاوہ ایسے صحیح اور مفید اقتصادی نظام کو فراہم کرنے کے لئے جو تمام انسانوں کے لئے کافی ہو، ضروری ہے کہ ایک طرف انسانوں کی معلومات میں اضافہ ہو، ان کی علمی سطح بلند ہو۔ اور دوسری طرف صنعت کے میدان میں ترقی ہو۔ ایسے وسائل ایجاد کئے جائیں جو پوری دنیا کو آپس میں ملا کر ان کے درمیان سریع اور دائمی رابطہ بروئے کار لا سکیں اور ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے بھی کافی وقت کی ضرورت ہے ۔ اگر دنیا کے گوشہ گوشہ سے فوری طور پر رابطہ برقرار نہ ہو سکتا ہو تو پھر ایک حکومت پوری دنیا کے نظم و نسق کو کیسے سنبھال سکے گی ؟! پوری دنیا کی حکومت ایسے وسائل کے سہارے چلانا کیسے ممکن ہے ۔

ثقافتی اور صنعتی ارتقاء , فلسفہ غیبت مہدی

جن کے ذریعہ دور دراز کے مقام پر ایک پیغام بھیجنے کے لئے کئی سال درکار ہوں؟ جو روایات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے انقلاب کے زمانہ میں دنیا کے لوگوں کی زندگی کی کیفیت بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس زمانہ میں صنعت اور ٹیکنالوجی ، خاص طور سے حمل و نقل اور مواصلاتی آلات کے میدان میں اس حد تک ترقی کر چکی ہوگی کہ دنیا کے براعظم عملی طور پر چند نزدیکی شہروں کی صورت اختیار کرلیں گے مشرق و مغرب ایک گھر کی مانند ہو جائیں گے اور زمان و مکان کی مشکل پورے طور پر حل چکی ہوگی ۔

البتہ ممکن کہ ان میں سے بعض چیزیں اسی زمانہ میں جست اور صنعتی انقلاب کے ذریعے انجام پذیر ہوں لیکن پھر بھی اس زمانہ کی آمد پر ایک طرح کی علمی آمادگی موجود ہونی چاہیے تا کہ اس صنعتی انقلاب کے لئے زمین ہموار ہو ۔

ایک انقلابی فربتی قوت کی تربیت

آخر میں ضروری ہے کہ اس انقلاب کے لئے دنیا میں ایک ایسے گروہ کی تربیت کی جائے جو اس عظیم مصلح کی انقلابی فوج کے اصلی حصہ کو تشکیل دے سکے ، چاہے وہ اقلیت ہی میں کیوں نہ ہو۔ اس دہکتے ہوئے جہنم کے درمیان کچھ پھول بھی کھلنا چاہئیں تا کہ وہ گلستان کا پیش خیمہ بن سکیں ، اس شور زار میں کچھ پودے بھی اگنا چاہئیں تا کہ دوسروں کو بہار کی آمد کی نوید دے سکیں۔ اس مہم کے لئے بہت ہی زیادہ شجاع ، فداکار ، باخبر ، ہوشیار ، دلسوز اور جانباز افراد کو تربیت دینے کی ضرورت ہے، چاہے اس کام میں کئی نسلیں گزر جائیں تا کہ اصلی خزانے آشکار ہو جا ئیں اور انقلاب کے اصلی عناصر فراہم ہو جائیں۔ اس کام کے لئے بھی اچھا خاصا وقت درکار ہے۔

ایک-انقلابی-ضربتی-قوت-کی-تربیت-فلسفہ-غیبت-مہدی

لیکن سوال یہ ہے کہ اس قسم کے افراد کی تربیت کون کرے ؟ اس سلسلہ میں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ اسی عظیم رہبر کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ اس منصوبہ کو شروع کرے ۔ اسلامی روایات میں امام کی غیبت کے طولانی ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا امتحان ہو جائے اور ان میں سے جو سب سے بہتر ہو، اس کا انتخاب کر لیا جائے ممکن ہے کہ یہ احادیث انہی مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہوں جن کو میں ابھی عرض کر چکا ہوں ۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خداوند عالم انسانوں سے جو امتحان لیتا ہے وہ اس دنیاوی امتحان کی طرح لوگوں کی استعداد سے مطلع ہونے کے لئے نہیں ہے، بلکہ اس امتحان کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں جو استعداد موجود ہے ان کو پروان چڑھایا جائے تاکہ صلاحتیں ابھر کر سامنے آجائیں ۔ نیز صالح اور غیر صالح افراد کی صفوں میں امتیاز ہو جائے ۔دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جاسکتا ہے کہ ان امتحانات کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں آمادگی پیدا کی جائے اور موجودہ آمادگیوں کو ترقی دی جائے ۔ کیونکہ خداوند عالم ہر چیز سے باخبر ہونے کے سبب اس بات کا محتاج نہیں کہ امتحان کے ذریعے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرے ۔ چنانچہ مجموعی طور پر اس بحث سے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے اس قدر طولانی ہونے کی ضرورت اچھی طرح واضح ہو چکی ہے۔

اس سارے مواد کو درج ذیل کتاب لیا گیا ہے

حوالہ کتاب : فلسفہ غیبت مہدی ع

اس کتاب کو خریدنے کے لئے ہمیں واٹس ایپ کریں